Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زبان ِ دل سے درود و سلام ہوجائے

حلقہ ادب اسلامی، قطر کا سالانہ نعتیہ مشاعرہ ، نعت پاک کہتے ہوئے اعتدال کا خیال رکھنا بہت اہم ہے،سید محی الدین شاکر
 
دوحہ:مظفر نایاب
 
دوحہ قطر میں اسلامی روایات اور اعلیٰ ادبی معیار کے امیں حلقہ ادب اسلامی قطر نے اپنی دیرینہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے  تاریخ انسانیت کی عظیم ترین اور دلآویز شخصیت سید الرسل و خاتم الأنبیاء محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ ٔ مبارک کے لئے اپنے ماہانہ ادبی اجلاس کو سیرت طیبہ اور نعتیہ مشاعرہ کے لئے مختص کیا۔اس کی صدارت سید محی الدین شاکر نے کی جو الیکٹرانک انجینئیر ہیں۔ حلقۂ رفقائے ہند، قطر کے ایک سے زائد میقات میں صدر بھی رہ چکے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آج کی اس بارونق نعتیہ محفل میں مجھے کرسیٔ صدارت پر بٹھایا گیا جہاں یہ میرے لئے یہ ایک اعزاز ہے، وہیں ایک بڑی آزمائش بھی ہے۔ آج کی یہ محفل یعنی سنانے والے اور سننے والے سب ہی قابلِ قدر ہیں۔ 
اصل بات یہ ہے کہ سیرت طیبہ کا جو پہلو بھی ہم تک پہنچے وہ عمل پر ابھارنے والا بن جائے۔ ا نہوں نے کہا کہ شعری حصے میں سارے ہی شعراء نے غلو سے بچتے ہوے نعتیہ شعر کہنے کی کوشش کی اور ہر شعر کے اندر کچھ نہ کچھ پیغام دینے کی اپنی سی سعی کی ہے۔ نعت گوئی میں شاعر جس عقیدت اور محبت میں ڈوب کر کہتا ہے ایسے میں اعتدال کا خیال رکھنا بہت اہم ہوتا ہے ۔
اجلاس کے صدر نے نعیم صدیقی کی کتاب محسنِ انسانیت سے سیرت طیبہ کے ایک پہلو کو پیش کیا۔موصوف نے اپنی گفتگو کو علامہ اقبال کے اس فارسی شعر پر ختم کیا
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر  بہ  او    نرسیدی  ،  تمام  بولبہیست 
 
محترم شہر مانوہ کرناٹک سے متعلق ہیں آپ نے جامعہ دار السلام ،عمرآباد سے عا لمیت وفضیلت کی اسناد پائیں بعدازاں اپنی ذاتی محنت اور مطالعہ سے اتنا کچھ علم حاصل کرلیا کہ بہت سی اعلیٰ اسناد رکھنے والے آپ کے سامنے بونے نظر آتے ہیں ۔تقریر اور تحریر دونوں میدانوں میں آپ یکساں قابلیت رکھتے ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آپ صرف علم وفن کے شہسوار ہی نہیں بلکہ عمل کے غازی بھی ہیں دوحہ قطر میں آپ کا 1992ئمیںوزارت اوقاف واسلامی امور آنا ہوا۔
 
مہمانِ خصوصی محمد عبد الحفیظ نے اپنی گفتگو میں خوشی کا اظہار کیا کہ میں اس محفل میں آکر علمی اور روحانی دونوں طور پر مستفید ہوا ہوں،  ہمارے معاشرے میں یہ ایک عجیب رواج ہے کہ جو عام ہوتے ہیں انہیں خاص کردیتے ہیں اور جو میزبان ہوتے ہیںانہیں مہمان بنادیتے ہیں۔ بہت ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ایک فاصلہ پیدا کیا جائے کہ سننے والے عام لوگوں کی باتوں کو خاص سمجھ کر توجہ سے سنیں یا جنہیں مدعو کیا گیا ہے ان پر ایک ذمہ داری عائد کی جارہی ہے کہ وہ کوئی خاص بات پیش کریں۔میں پریشان ہوں کہ اس موقع پر کونسی بات پیش کروں۔ سب سے پہلے اللہ کریم کاشکر ادا کرتا ہوں کہ میں آیا تو خالی ہاتھ تھا مگر جب لوٹ رہا ہوں تو اجر وثواب کے بڑے خزانے کے ساتھ، ایمان کی تازگی کے ساتھ اور اصحابِ سخن کے اچھے کلام کے ساتھ۔ آپ لوگوں کے ساتھ مل کر جتنی مجھے داد دینی تھی ،شاید میں نہیں دے سکا مگر میں اب کہوں گا سبحان اللہ، سبحان اللہ، سبحان اللہ
 
 شاعرِ رسول، سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ایک شعر ہے جس کا اردو میں مفہوم کچھ یوں ہے کہ 
’’اپنے بیان کے ذریعہ محمد کی نہیں بلکہ میں نے ذکرِ محمد کے ذریعہ اپنے بیان کی تعریف کی ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کریم نے خود آپ کی تعریف ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کہہ کر فرمادی ہے۔ نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک ہم ’’التحیات للہ‘‘ کے ساتھ ’’السلام علیک أیہا النبی‘‘ نہیں کہہ لیتے۔ نماز کے لئے کہی جانے والی اذان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتی جب تک’’ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ ‘‘کے ساتھ ’’اشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘ کے کلمات نہیں کہے جاتے۔ 
جو اصحابِ سخن یہاں آئے ان کے جذبات میں کافی گرمی تھی ، شوق صاف طور پر جھلک رہا تھا۔دو مقام ایسے ہیں جہاں پر آدمی کاقابو میں رہنا مشکل محسوس ہوتا ہے  ایک وہ وقت جب وہ بہت خوش رہتا ہے ،  اور دوسرا اس وقت جب وہ بہت غم زدہ ہوتا ہے ۔ نعت گوئی ایک ایسا مقام ہے جہاں انسان کے جذبات بہت عروج پر ہوتے ہیں ، اس موقع پر شاعر غلو کی حدود میں داخل نہ ہو، یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس کا ایمان اللہ کریم پر مضبوط ہو۔
واقعہ معراج  کے موقع پر اللہ کریم نے آپ کو جس لقب سے یاد فرمایا وہ لفظ’’ عبد‘‘ تھا جسے ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔
 
گرچہ نعت طیبہ کہناسخن کی ایک نازک صنف ہے جو تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے مگر راستے کے خطرات کو دیکھ کر آدمی راستے پر چلنا نہیں چھوڑتا ۔آخری بات یہ کہ رسول کریم کی سیرت طیبہ کے کئی پہلو ہیں۔ آپ جامع کمالات تھے اور ایک انسانِ کامل تھے لیکن عام طور پر ہمارے شعراء کا کلام ہوتا ہے عموما ً آپ کی تعریف وتوصیف تک محدود ہوتا ہے ۔
ہوسکتا ہے نعت میں یہی ہوتا ہو، میں اس کا ماہر نہیں ہوں یا مجھے اس کا پوری طرح علم نہیں ہے مگر جب ایک کامل انسان کی تعریف بیان ہورہی ہو تو اس ہستی مبارک حیات طیبہ کے سارے مبارک پہلوؤں پر روشنی ڈالنی چاہئے اس لئے کہ ایک نثر نگار سیرت پر لکھے گا تو بہت پھیلا کر لکھنا پڑے گا جبکہ اسی کو شاعر ایک شعر میں ڈھال کر پیش کردیتا ہے ۔ 
 
مہمانِ اعزازی محترم خالد داد خاں،جو انجمنِ محبانِ اردو ،قطر کے صدر بھی ہیں انہوں نے اپنی تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے بحیثیت مہمان شریک کیا گیا۔ نعت پاک، اردو شاعری کی وہ صنفِ سخن ہے جس کے اشعار میں رسولِ مقبول کی تعریف وتوصیف بیان ہوتی ہے چونکہ نعت طیبہ کے لئے اسالیب طے نہیں ہیں اس لئے اس کا دائرہ بڑا وسیع ہوجاتاہے مگر سب سے اہم تقاضا عشقِ رسول سے سرشاری کا ہے۔نعت  طیبہ  کا فن بظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے  اسی قدر مشکل بھی ہے  ایک طرف وہ ذاتِ گرامی ہیں جن کی مدح خود رب العالمین نے فرمائی ہے اور دوسری طرف زبان وشاعری ہے، اس لئے نعت طیبہ کا حق وہی ادا کرسکتا ہے جو جذبۂ عشق رسول سے سرشار ہو۔ انہوں نے عزیز نبیل کے اس شعر پر اپنی گفتگو کا اختتام کیا کہ
 روشن نصیب لوگ ہیں کہتے ہیں نعتِ پاک
 یہ صنف چاہتی ہے نظر احترام کی 
 
اردو شاعری میں ابتداء ہی سے نعت طیبہ کو بڑ ی اہمیت حاصل ملی ہے چونکہ اردو شاعری دکن سے شروع ہوئی تو دکنی شعراء ہی کو نعت گوئی میں پہل کی سعادت نصیب ہوئی جیسے سلطان قلی قطب شاہ جن کا خاصا کلام نعتِ طیبہ  پر مشتمل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ولی دکنی کے دور سے لیکر عہدِ جدید تک نعت گوئی کا یہ سلسلہ چل رہا ہے یوں اردو کا ہر شاعر نعت طیبہ کہنا اپنے لئے باعثِ سعادت تصور کرتاہے ۔
میں اس موقع پر حلقہ ادب اسلامی قطر کے تمام ذمہ داروں کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتاہوں کہ انہوں نے شہ نشین پر نشست دیکر مجھے اعزاز بخشا۔آخر میں انہوں نے حلقہ ادب اسلامی کے بگنی صدر محترم محمد شکیل  کے انتقال کے حوالے سے تعزیتی کلمات بھی کہے ۔مشاعرے میں پیش کئے گئے  شعرائے کرام کے کلام سے اقتباس پیش خدمت
 
٭٭بشیر عبد المجید 
درود آپ پر جو بھی پڑھتا رہے گا
سدا مرتبہ اس کا بڑھتا رہے گا
درود آپ پر جو بھی پڑھتا نہیں ہے
بخیل آدمی بس وہی ہے وہی ہے
 
٭٭راقم اعظمی: 
عقیدت کی میں ابتدا کررہا ہوں
میں اپنا  وظیفہ ادا کررہا ہوں
ترا قرب محشر میں مل جائے مجھ کو
الٰہی یہی بس دعا کررہا ہوں
٭٭عامر شکیب:
ذکرِ طٰہٰ سے گر کچھ اثر چاہئے
سوزِ دل چاہئے ،  چشم ِ  تر چاہئے
٭٭فیاض بخاری:
ذکرِ احمد جو کروں بوئے وفا آتی ہے
صورتِ نعت ہر اک غم کی دوا آتی ہے
٭٭سعادت علی سعادت: 
اہلِ ایماں  کا  بھرم  آپ نے رکھا آقا
روزِ محشر بھی نبی لاج  بچائے  رکھئے
٭٭سید فہیم الدین: 
مجھ پہ دنیا کے ظلم وستم تھے روا
جبر ہونے لگا ،  نعت لکھی گئی
میں نے دیکھا کہ دل کو قرار آگیا
صبر ہونے لگا ،  نعت لکھی گئی
٭٭منصور اعظمی : 
آپ کے آنے سے پہلے یا محمد مصطفی
جہل کی تاریکیاں تھیں علم و حکمت کے بغیر
٭٭افتخار راغب:
زبان ِ دل سے درود و سلام ہوجائے
سکونِ روح کاکچھ اہتمام ہوجائے
تمام  عمر اسی  فکر میں کئے راغب
پیام  شاہِ  مدینہ   کا عام ہوجائے
٭٭عزیز نبیل:
امانت اور صداقت کی بلندی
سمٹ جاتی ہے پائے مصطفی تک
لہو نعلین سے جاری ہے پھر بھی
نہیں دیتے کسی کو  بد  دعا تک
٭٭مظفر نایاب:
چھانتا ہوں مدینے کی گلیوں کی خاک
کچھ مجھے ان کی گردِ سفر چاہئے
چاہئے  پھر  مدینے کی  بادِ  صبا
پھر وہیں کی نسیم ِ  سحر  چاہئے
٭٭شوکت علی ناز:
مدح لکھتا ہوں تو ہوجاتا ہے خامہ روشن
نعت لکھتا ہوں تو ہوجاتا ہے لہجہ روشن
٭٭شفیق اختر:
مصطفی کا خواب میں دیدار ہو جس رات میں
 اے خدا مجھ کو ملادے ایک دن اس رات سے 
٭٭رفیق شاد آکولوی:
ورزش نہ  ہو  فقط  یہ  سجود  و  قیا م  کی
پڑھئے نماز جیسے تھی خیر الأنام کی
٭٭عتیق انظر:
ہے آپ کی بات پھول جیسی
 اس پھول پہ میں فدا محمد 
 

شیئر: