Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا مولانا ایک اور بازی ہار چکے ہیں؟

مولانا فضل الرحمان حکومت مخالف تحریک پی ڈی ایم کی سربراہی کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
یکم فروری کا سورج طلوع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کے خلاف طنزیہ پوسٹیں، جگت نما سٹیٹس اور مزاحیہ میمز نظر آنا شروع ہوئیں، ان تمام میں ایک نکتہ مشترک تھا کہ پی ڈی ایم نے حکومت کو 31 جنوری کی جو ڈیڈلائن دی ہے، وہ گزر گئی مگر اپوزیشن اپنے انتشار پر قابو پا کر کوئی متفقہ لائحہ عمل نہ بنا سکی۔
اس کے بجائے مولانا فضل الرحمٰن کو لوگوں نے ٹی وی سکرین پر یہ کہتے دیکھا کہ ’ہماری لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بلکہ حکومت سے ہے۔‘
مولانا فضل الرحمٰن کا یہ بیان اس لیے حیران کن تھا کہ ابھی چند دن پہلے تک وہ اور ان کے اتحادی بار بار یہ کہتے رہے ’ہماری اصل لڑائی حکومت سے نہیں بلکہ انہیں لانے والوں سے ہے۔ یہ حکومت تو کٹھ پُتلی ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں اور ہم اسے لانے والوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘ مولانا نے چند ہفتے پہلے ایک اور چونکا دینے والا بیان دیا تھا کہ ’ہم فیصلہ کریں گے ہمارا لانگ مارچ پنڈی کی طرف ہو یا اسلام آباد کی جانب۔‘
ظاہر ہے اس میں یہ واضح اشارہ موجود تھا کہ وہ اور ان کے اتحادی جی ایچ کیو کے باہر جمع ہو کر احتجاج کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
اب اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ مولانا نے اپنا پورا موقف ہی تبدیل کر لیا۔ جسے وہ کمزور اور کٹھ پتلی کہتے تھے، ان کے خیال میں جس کی کوئی حیثیت ہی نہیں، اب وہ ان کا ہدف کیسے بن گیا؟
دراصل مولانا فضل الرحمان سے اندازے کی ایک اور سنگین غلطی ہوئی۔ بدقسمتی سے یہ پہلی غلطی نہیں۔ جولائی 2018 کے الیکشن میں شکست کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے پہلی غلطی یہ کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر چلے گئے۔
انہوں نے نہایت جارحانہ انداز میں اسمبلی کا پہلا اجلاس نہ ہونے کی دھمکی دی اور کہا کہ ہم حکومت نہیں چلنے دیں گے۔ مولانا کے کہنے کا کسی پر اثر نہیں ہوا۔
مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے نومنتخب اسمبلی کے پہلے سیشن میں شرکت کی اور یوں نئی حکومت کو پریشان کرنے کی مولانا کی پلاننگ ابتدا ہی میں ناکام ہوگئی۔

پی ڈی ایم میں ملک کی بڑی حکومت مخالف جماعتیں شامل ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

 مولانا سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ مناسب ہوم ورک اور انہیں موصول ہونے والی خبروں کے سنجیدہ تجزیے کے بغیر ہی انہوں نے اکتوبر 2019 میں آزادی مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کا فیصلہ کر لیا۔
پیپلزپارٹی انہیں اس وقت روکتی رہی، جبکہ ن لیگ نے بھی کچھ زیادہ پُرجوش خیرمقدم نہیں کیا۔ مولانا کے پاس نہ جانے کیا اطلاعات آئی تھیں کہ انہوں نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، ملک بھر سے اپنے ہمدردوں اور کارکنوں کو اکٹھا کیا اور اسلام آباد پر چڑھ دوڑے۔
 ان کے پاس خبریں درست نہیں تھیں یا کچھ ذرائع نے انہیں دھوکہ دیا۔ انہیں کہیں سے موثر سپورٹ نہ مل سکی۔
مولانا لاہور پہنچے تو میاں نواز شریف نے ملنے یا فون پر بات کرنے تک سے انکار کر دیا۔
مولانا کے اسلام آباد کے دھرنے میں اپوزیشن لیڈروں نے علامتی شمولیت تو کی، مگر ان کے دھرنے میں بڑی جماعتوں نے ساتھ نہ دیا۔
اے این پی نے البتہ اسے عوام رابطہ مہم کا حصہ سمجھتے ہوئے اپنے کارکنوں کو موبلائز کر ڈالا۔ مولانا کے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچا تھا۔ وہ اسلام آباد چند دن تک پڑے رہے، مگر حکومت نے تدبر سے کام لیتے ہوئے کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی سے گریز کیا۔
حکومت نے مولانا کو فیس سیونگ کا موقعہ بھی نہیں دیا، ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا۔ اسلام آباد میں بارشیں شروع ہو گئیں، سردی بڑھنے لگی۔ مولانا کو اپنا دھرنا اور مارچ ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔
انہوں نے ابتدا میں پلان بی، سی کا ذکر کیا، مگر دو چار دن میں یہ تمام پلان اپنی موت آپ مر گئے، مولانا کے حصے میں ناکامی کی پشیمانی آئی۔

2019 میں مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ آزادی مارچ کا مقصد عوام کا حق حکمرانی بحال کرنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

 مولانا کی تیسری بڑی غلطی اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کی ہائپ اور رفتار ضرورت سے زیادہ تیز رکھنا ہے۔
دراصل عام انتخابات میں شکست کے بعد مولانا اتنے اشتعال میں ہیں کہ اپنی روایتی سیاسی فراست، ہوشیاری اور توازن کھو بیٹھے۔ مسکراتے ہوئے صحافیوں کے جواب دینا ان کا وتیرہ تھا۔ اب ایک دو سوالات کے بعد ہی وہ چڑ جاتے ہیں اور جھنجھلاہٹ لہجے میں اتر آتی ہے۔
عمران خان حکومت سے نجات پانے کی خواہش اتنی شدید ہے کہ مولانا معروضی حقائق اور زمینی حالات کا اندازہ بھی نہیں کر پا رہے۔
انہیں یہ بات سمجھنا چاہیے تھی کہ پاکستان میں سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بیک وقت نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ ایسی کوئی بھی کوشش حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک ہی پیج پر کھڑا کر دیتی ہے۔
مولانا اور ان کے اتحادیوں نے یہی غلطی کی۔ مولانا اگر چاہتے تو وہ میاں نوازشریف کے ضرورت سے زیادہ جارحانہ حملوں کو نرم کر سکتے تھے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ پی ڈی ایم نے اپنے پہلے جلسے میں جس انتہا کو چھو لیا، وہاں تک سیاسی مہم کے اختتام تک جانا چاہیے تھا۔
ابتدا ہی میں اتنی جارحیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپوزیشن کی حکمتِ عملی میں سرپرائز کا عنصر ختم ہوگیا۔ ہر ایک کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اگلے جلسے میں کیا کچھ کہا جائے گا۔
 جب یہ معلوم ہو کہ کیا بولا جائے گا، تب وہ جلسہ سننے صرف پارٹی کارکن ہی جائیں گے، عوامی حلقے نہیں۔
مولانا کا شاید خیال تھا کہ عوامی سطح پر اگر اداروں اور شخصیات کا نام لیں گے توا ندرونی دباﺅ پیدا ہوگا اور مقتدر حلقے پریشان ہو کر وزیراعظم عمران خان سے جان چھڑانے اور اپوزیشن کو اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ سمجھداری سے ساتھ چلنے کی کوشش کرنے والے سول وزیراعظم کی جگہ اسٹیبلشمنٹ اس اتحاد کو قبول کیسے کرے گی، جس کے جلسوں میں اہم ترین شخصیات کا نام لے کر تنقید کی جاتی ہو؟

پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت لہجہ استعمال کیا (فوٹو: اے ایف پی)

مولانا کو پیپلزپارٹی کے سٹیکس سمجھنے چاہیے تھے۔ وہ آخر سندھ حکومت گنوانے کا خطرہ کیوں مول لے؟ سینیٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف کو واک اوور کیسے دیا جا سکتا تھا؟ اگر ان خطوط پر مولانا نے سوچا ہوتا تو وہ کبھی آخری مرحلے تک چھلانگ نہ لگاتے۔
اپوزیشن کے لیے بہتر یہی تھا کہ اپنے جلسوں کا سلسلہ جاری رکھتی، مہینے میں دو شہروں میں جلسوں کے ذریعے دباﺅ برقرار رکھا جاتا۔ یوں ان کے لیے پسپائی کا سوال پیدا نہ ہوتا۔
پی ڈی ایم کے لیے اب بڑی شرمندگی کا معاملہ ہے کہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کی بات کر کے، اسلام آباد مارچ اور دھرنوں کی دھمکی دے کر خاموشی سے بیٹھا جائے۔
سینیٹ کے انتخابات کے بعد جلد ہی بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔
پنجاب میں تین فیزز میں الیکشن کرائے جائیں گے۔ 36 اضلاع ہیں۔ 12،12 اضلاع میں الیکشن ہوجائیں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اسمبلی اور کارکن بلدیاتی انتخابات میں مصروف ہوجائیں گے۔
انہیں معلوم ہے کہ تحریک انصاف کے لائے بلدیاتی نظام میں بلدیاتی اداروں کو 25 سے 30،35 فیصد تک ترقیاتی بجٹ دیے جائیں گے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہماری لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بلکہ حکومت سے ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ارکانِ اسمبلی کے لیے ایسی ترغیب سے دور رہنا بہت مشکل ہے۔ وہ اپنے بیٹوں، بھانجے بھتیجوں، دامادوں کے لیے سیاسی سپیس پیدا کریں گے اور بلدیاتی انتخابات جیتنے کی کوشش کریں گے۔
 بظاہر یہی محسوس ہو رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ایک اور سیاسی بازی ہا ر گئے ہیں۔ پچھلی بار انہوں نے مارچ اور دھرنے کا ایڈونچر کیا، مگر ناکام رہے۔ اس بار تو وہ مارچ، دھرنے کی نوبت تک نہیں پہنچے، صرف بیانات دینے کے دوران ہی غبارے سے ہوا نکل گئی۔
 مولانا اور ان کے ساتھیوں کے لیے اصل مسئلہ اب بھرم بچانا ہے۔ وہ کوئی موثر حکمت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے، یکسوئی کا تاثر بھی نہیں دیکھ پا رہے، سینٹ کے انتخابات کے بعد بھی آل آﺅٹ وار پر جانا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ بظاہر تو لگ رہا ہے کہ مولانا ایک اور بازی ہار چکے ہیں۔

شیئر: