Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روات میں ٹیکس وصولی پر وزارت دفاع کا وزارت داخلہ سے الگ مؤقف

پارلیمان میں حکومت کی دو وزارتوں نے ایک ہی مسئلے پر دو مختلف مؤقف اختیار کیے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) اور ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں پاکستان کی وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کی جانب سے ایک ہی سوال کے دو مختلف جوابات سامنے آنے کے بعد دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں وزارت داخلہ نے سٹیشن ہیڈ کوارٹر راولپنڈی کی جانب س روات کلر سیداں روڈ پر اڈے اور پارکنگ پر قبضے اور غیر قانونی اڈہ اور پارکنگ فیس وصولی کا الزام لگایا گیا جبکہ اس سے اگلے ہی دن سینیٹ میں وزیر دفاع نے کیمپنگ گراؤنڈ کو پاک فوج کی ملکیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اڈہ ٹیکس یونین کونسل روات کو ملتا ہے۔
تین فروری کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفقہ سوالات کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی سعد وسیم کی جانب سے وزیر داخلہ سے تحریری سوال پوچھا گیا کہ ’اسلام آباد کے نواح میں روات کلر سیداں روڈ، جی ٹی روڈ اسلام آباد انتظامیہ کے زیر انتظام علاقہ ہے لیکن وہاں پر ہر مسافر گاڑی سے پارکنگ اور اڈہ فیس پرائیویٹ کنٹریکٹر وصول کرتے ہیں؟ کیا اسلام آباد انتطامیہ نے اس حوالے سے اقدامات کیے ہیں اور غیرقانونی فیس وصولی بند کی ہے؟‘
اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے ایوان کو تحریری طور پر بتایا گیا کہ ’یونین کونسل روات یا مقامی انتطامیہ اڈہ پارکنگ فیس وصول نہیں کر رہی۔ یہ علاقہ آرمی کے زیر قبضہ ہے۔ سٹیشن ہیڈ کوارٹر راولپنڈی پرائیویٹ کنٹریکٹر کے ذریعے فیس وصول کر رہا ہے۔ 2013 میں اے سی ایڈمنسٹریٹر رورل کے حکم پر یونین کونسل روات کا قبضہ حاصل کیا گیا۔ لیکن سٹیشن ہیڈ کوارٹر راولپنڈی کی جانب سے دوبارہ قبضہ کر لیا گیا۔‘
وزیر داخلہ نے بتایا کہ اس حوالے سے ’یونین کونسل روات نے ایک رٹ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کر رکھی ہے جو زیر التوا ہے۔‘
یہ سوال قومی اسمبلی کی معمول کی کارروائی میں گم ہو گیا لیکن صورت حال اگلے دن اس وقت دلچسپ ہو گئی جب سینیٹ میں ن لیگی سینیٹر رانا محمود الحسن کی جانب سے بھی یہ سوال وزیر دفاع سے پوچھا گیا کہ ’کیا سٹیشن ہیڈ کوارٹر راولپنڈی کی جانب سے روات، کلر سیداں روڈ پارکنگ اڈہ فیس کا ٹھیکہ ایک پرائیویٹ ٹھیکیدار کو دیا گیا ہے؟ اگر ’ہاں‘ تو اس کی وجوہات کیا ہیں اور اگر ’نہیں‘ تو کنٹریکٹر کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟‘
اس کے جواب میں وزیر دفاع پرویز خٹک کی جانب سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ ’روات کیمپنگ گراؤنڈ 95 ایکڑ پر محیط ہے، یہ آرمی کی ملکیت ہے۔ جس کا حکم 1937 میں اس وقت کے گورنر جنرل نے دیا تھا۔ جس کا مقصد اس گراؤنڈ کا دفاعی مقاصد کے لیے استعمال تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اب بھی روات کیمپنگ گراؤنڈ کو پاک فوج دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ کیمپنگ گراؤنڈ کا ایک چھوٹا حصہ لینڈ رینٹ بنیادوں پر عارضی منصوبوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ کیمپنگ گراونڈ روات اور اس کا استعمال یونین کونسل اسلام آباد اور این ایچ اے کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔‘
وزیر دفاع نے بتایا کہ ’کیمپنگ گراؤنڈ کے سامنے والے حصہ میں این ایچ اے نے گاڑیوں کا اڈہ تعمیر کیا ہے۔ اڈے سے حاصل ہونے والا ٹیکس ٹھیکیدار یونین کونسل کو جمع کراتا ہے۔ عسکری حکام کا روات بس اڈے ٹیکس وصولی سے کوئی تعلق نہیں۔‘
یاد رہے کہ یہ سوال پہلی مرتبہ ایوان میں نہیں ہوا بلکہ 23 اکتوبر 2020 کو بھی سینیٹ اجلاس کے دوران مذکورہ سینیٹر کی جانب سے اسی سوال کے جواب میں وزیر دفاع نے کہا تھا کہ ’اس سوال کے جواب کے لیے متعلقہ اداروں سے معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔ جب معلومات اکٹھی ہو جائیں گی تو وزارت کی جانب سے جواب دیا جائے گا۔‘

شیئر: