Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمی اردو مرکز کی سہانی شام، نعیم بازید پوری کے نام

 
اردو نیوز و ملیالم نیوز کے ایڈیٹر ا نچیف طارق مشخص کی زیر صدارت منعقدہ تقریب
 
ادب ڈیسک
 
ہماری خوش نصیبی ہے کہ پرائمری میں شعور سنبھالنے سے چند گھنٹے قبل ہی سے مذکر و مونث اساتذہ¿ کرام کے بھیس میں ”پاسدارانِ ادب “کی فوج ظفر موج نے ہماری انگلی تھام لی تھی۔ ان کی تعداد دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ ہمارے استادوں کی ٹیم ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کسی اعلیٰ یا اعظم قسم کے وزیر کے مشیران ہیں۔ ان سب نے مل کرہمیں ادب کی چاشنی کا اسیر کر دیا تھااور خوب اچھی طرح باور کرا دیا تھا کہ ادب کسے کہتے ہیں، آداب کیا ہوتے ہیں، باب کسے کہتے ہیں، ابواب کیا ہوتے ہیں،سوال کسے کہتے ہیں اور ان کے جواب کیا ہوتے ہیں۔ انہی استانیوں اور استادوں کی مہربانیوںکے باعث ہی آج ہم اس قابل ہو سکے ہیں کہ کسی بھی شاعر کے دیوان کا ایک شعر ،نثّارکی نثر کے لفظوں کا ہیر پھیر، کسی مصنف کا ایک ناول ،کسی بھی دیگ کا ایک چاول دیکھ کر، کسی بھی بزم میں 5منٹ کی شرکت کر کے اور دوسرے کے کاندھے پر بندوق دھر کے آن کی آن میں جان لیتے ہیں کہ کون کتنے پانی میں ہے ۔
ہم نے اپنی جوانی میں ایک شعر سنا تھا جو اپنی روانی اور بھرپور معانی کے باعث ہمیں آج بھی زبانی یاد ہے۔نامعلوم شاعر نے فرمایا تھا کہ :
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی ، خدا کی قسم، لا جواب کی 
ریختہ دانی کے اس انوکھے پرتوکے حامل اس شعر کا مصرع ِ ثانی عالمی اردو مرکز، جدہ کے زیرِ اہتمام سجائی جانے والی کسی بھی بزم یا شام، اجتماع یا پروگرام ، نشست یا قیام، بحث یا کلام پر صادق آ تا ہے کیونکہ شائستگی، شستگی، شان و شوکت ،تہذیب و تمکنت ،شعار و معیار، نستعلیقیت و وقاران کا خاصہ ہوتی ہے۔وہ جانتے ہیں کہ پیچ کیا اور تاب کیا ہے ، پیری کیا اور شباب کیا ہے، حُسن کیااور نقاب کیا ہے، بے باکی کیا اور حجاب کیا ہے، پاﺅں کیا اور رکاب کیاہے، علم کیا اور کتاب کیا ہے ،درس کیااور نصاب کیا ہے۔اس کا ایک ثبوت جدہ کے مقامی ریستوران کے حال میں پاکستانی مذاق سے معمور لذتِ کام و دہن کے بعد بپا کیا جانے والا ”جشنِ اعزاز“ تھا۔ اس انداز میں کسی شاعر ، ادیب ، سخنور یا دانشور کو عطائے اعزاز بھی بلا شبہ ”عالمی اُردو مرکز، جدہ کی ”طرح“ ہے جس کے لئے اس مرکز کے تمام صاحبان و ذمہ داران مبارک باد کے مستحق ہیں۔بہر حال ہم نے اس جشن میں جو کچھ” سہا“ یا محسوس کیا، انہیں 3مصرعوں کے ساتھ ایک تضمین کی شکل میں پیش کرکے اپنے خیالات کی ترجمانی کرنے کی کوشش یوں کی ہے کہ:
تجسیم ہو رہی تھی وہاں ”آب و تاب“ کی
تعبیر مل رہی تھی مجھے میرے خواب کی
اُردو،میں کیا کہوں تجھے اے عالمی مرکز
جو بات کی ، خدا کی قسم، لاجواب کی 
پہلا” جشنِ اعزاز“ اردو نیوزکے صحافی اور شاعر نعیم بازید پوری کےلئے منعقد کیاگیا تھا۔ ویسے تو وہ رواں ماہِ فروری کی ایک خُنک اور سہانی شام تھی مگرعالمی اردو مرکزکے عہدیداران نے اسے گرما رکھا تھا،ہم ہال میں داخل ہوئے مشتہی خوشبوﺅں نے ہمارا استقبال کیا۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ کسی قسم کی ہبڑ دھبڑ نہیں تھی ۔ یوں محسوس ہوا کہ سبھی شرکاءکھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ہم انہی سوچوں میں گم تھے کہ اچانک روسٹرم سے عالمی اردو مرکز کے سیکریٹری جنرل حامد اسلام خان کی آواز ہال میں گونجی ۔ انہوں نے اردو مرکزکے صدر اطہر نفیس عباسی کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی جنہوں نے دیگر مہمانانِ گرامی کو باری باری اسٹیج پر مدعو کیا۔ اردو نیوز و ملیالم نیوز کے ایڈیٹر انچیف محترم طارق مشخص کرسی¿ صدارت پر براجمان ہوئے۔مہمان خصوصی کے طور پر ضیاءعبداللہ ندوی اورصاحبِ جشن نعیم بازید پوری کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ 
جشن کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیاگیا۔ یہ سعادت قاری محمد آصف نے حاصل کی۔ان کے بعد شیر افضل نے نعیم بازیدپوری کی لکھی ہوئی حمد باری تعالیٰ اورمحمد نواز جنجوعہ نے خوش لحن انداز میں نعیم بازید پوری کی کہی ہوئی نعت طیبہ پیش کی۔عالمی اردو مرکز کے نائب صدر اور چیئر مین مجلسِ اقبال محمد عامر خورشید رضوی نے خطبہ¿ استقبالیہ پیش کیا اور عالمی اردو مرکز کا مختصر تعارف بھی پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ اردور اعجاز نہیں تو کیا ہے کہ اس زبان نے بغیر کسی سیاسی سرپرستی کے صدیوں تک اپنی مقبولیت کا سفر جاری رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ علامہ اقبال ہوں یا منٹو، کرشن چندر ہوں یا راجندر سنگھ بیدی ، فیض احمد فیض ہوں، احمد فراز ہوں، محسن احسان ہوںیا عطا شاد، سب اپنی علاقائی زبانوں کی رعنائیاں تج کر اس نازنینِ دلفریب و خوش اندام کے پہلو میں آن بیٹھے اور ایسے بیٹھے کہ بس اسی کے ہو رہے۔
اس مرحلے پر صاحب جشن کو گلدستے، شیلڈ اور تحائف پیش کئے گئے۔ سابق وزیر چوہدری شہبازاورپاکستانی بزنس مین مسعود احمد پوری نے اجرک پیش کی۔ عالمی اردو مرکز کے رکن زمرد سیفی نے اپنا منظورم کلام اور نعیم بازید پوری کے لئے پاکستان سے ارسال کردہ نسیم سحر کا خاکہ پیش کیا اور کہا کہ سامعین کو یہ خاکہ سن کرحیرت ہو رہی ہے کہ میں نے اتنا فرینک اور نڈر ہو کر یہ خاکہ کیوں لکھا؟آپ غور کریں تو سمجھ جائیں گے کہ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ یہ خاکہ میں نے خود اس کی موجودگی میں نہیں پڑھنا،میں آخری جملے کے طورپر یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جو کوئی اپنے رسک پر نعیم بازید پوری کے روبرو یہ خاکہ پڑھے۔
فیصل طفیل نے نعیم بازیدپوری کی زمین میں انہی کے حوالے سے کلام پیش کیا:
شعر بھی خوب کہا ، لفظ بھی گہرا لکھا
جیسا روشن ہے وہ، ویسا ہی سنہرا لکھا
جب یہ معلوم ہوا شہر میں ہے جشنِ نعیم
 پھر غزل چھوڑ دی، میں نے بھی قصیدہ لکھا
محترم فضاءالرحمن نے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ نعیم بھائی کا کئی دہائیوں کا ساتھ ہے ، میں ان کی شخصیت سے بہت اچھی طرح سے واقف ہوں۔اگر ہر سال ایک دو ایسے جشن ہوں، جو استحقاق رکھتے ہیں انکی قدر شناسی ہونی چاہئے۔ 
اردونیوز اور ریڈیو جدہ کے ڈاکٹر لئیق اللہ خان نے نعیم بازید پوری کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ” معروف شاعر پروفیسر عنایت اللہ خان نے ایک شعر کہا تھا آج میرا حال اس سے ملتا جلتا ہے۔ انہوں نے کہاتھا کہ :
میری مشکل عجیب مشکل ہے 
میں مہاجر بھی ہوں، پٹھان بھی ہوں
نعیم بازید پوری کے حوالے سے میں شہادت دو ں تو مشکل اور خاموش رہوں تو دہری مشکل۔ نعیم بازیدپوری کے حوالے سے میری شہادت متعدد حوالوں سے شک کے دائرے میں آتی ہے۔ ان کے ساتھ میرے رشتے 3طرح کے ہیں۔ پہلا رشتہ مفاد کا ہے کئی برس سے معاہدہ ہے کہ یہ میرا مرثیہ لکھیں گے۔ دوسرا رشتہ حق کا ہے۔ میرے ہمسائے ہوتے ہیں۔ تیسرا رشتہ خوف کا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ یہ شاعر ہوتے ہوئے بھی بڑے خونخوار انسان ہیں۔ جسے یقین نہ آئے وہ ان کی سرخ انگارہ آنکھوں میں جھانکنے کی ہمت کرکے بینائی گنوانے کا تجربہ کرسکتا ہے۔
عصر حاضر میں جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان میں، معاذ اللہ، گستاخیاں ہوتی ہیں ، اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایسی سرگرمیاں ایسے کام اور ایسی باتیں منسوب کی جاتی ہیں جن کی بیخ کنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر کی۔ ہم لوگ یہ سب سن کر دشمنانان دین پر لعنت بھیجنے پر اکتفا کرلیتے ہیں۔
کیاآج کی اس مجلس سے ہم یہ عہد کرکے نہیں اٹھ سکتے کہ ہم ارض مقدس میں اپنے قیام کے باقی ماندہ ایام اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شعری و ادبی خدمت کیلئے وقف کردیں گے۔ نعیم بازید پوری میرے خصوصی مخاطب ہیں۔ یہ مقروض ہیںاس رب کے جس نے انہیں شعری تخلیق کا ملکہ عطا فرمایا، ذہنی راست روی اور فکری ہم آہنگی کا جلوہ بخشا، دینی فکر کی آبیاری کرنے والے خاندان میں پیدا فرمایا، مادی نعمتوں سے نہال ننھیال سے نوازا،روزگار کے عنوان سے ارض مقدس کا قیام نصیب فرمایا ۔ ا نہیں دفاع اسلام ، انہیں نصرتِ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، انہیں اُمت مسلمہ کے پیغام اعتدال کو شعری قالب میں ڈھال کر یہ قرض چکانا ہے۔
حامد اسلام خان نے اب اردو نیوز کے شہزاد اعظم کو دعوت ِ خطاب دی ۔ انہوں نے مضمون سے پہلے کہاکہ میں بتلاﺅں گا کہ دریا کوکوزے میں کیسے بند کرتے ہیں۔ ایک شخصیت کے 100سالوں کو 10منٹ میں 10سال فی منٹ کی رفتار سے بیان کرنا ہے :
فرق ہے عمر میں سال برابر
چلتے ہیں دونوں چال برابر
میں اور وہ ہیں اک دفتر میں
مرغی رکھی ہے دال برابر
رہتے ہیں وہ مرے نیبر ہُڈ میں
یعنی گھر کے نال، برابر
ہمارے والد صاحب نے دریافت کیا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے، ہم نے کہا شاعر، تو انہوں نے ہمیں ڈانٹتے ہوئے کہا کہ پتا ہے ! شاعربن کے پیداہوتا ہے، پیدا ہو کے نہیں بنتا۔ہم نے والد صاحب کی اس چشم کشا وضاحت پر 20برس تک تحقیق کی تو یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ وہ لوگ جواپنے دلی احساسات کو، ذہنی خیالات کو لفظوںمیں ڈھال کرنثر کے قالب میںسپردِ قرطاس کر دیتے ہیں، نا ثر کہلاتے ہیں، ایسے لوگ ڈال ڈال پائے جاتے ہیں اور۔۔۔۔۔
وہ لوگ جو تخئیلِ ذہنی کو نثرکے پیرہن سے نکال کراوزان و بحور سے آشنا کرکے نظم کا پابند کر دیتے ہیں ، وہ شاعر کہلاتے ہیں، ایسے لوگ پاتال پاتال پائے جاتے ہیں اور۔۔۔۔
وہ لوگ جن کے خیالات بھی منظوم ہوں اور تصورات بھی، جن کے احساسات بھی منظوم ہوں اور جذبات بھی، ایسے لوگ نعیم بازید پوری کہلاتے ہیں اور یہ خال خال بلکہ ”بفرضِ محال“ ہی پائے جاتے ہیں۔آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نعیم صاحب کا اس قدر شدید تعارف کیوں کرا رہے ہیں؟ تو جواباً ہم ایک نو دریافت محاورہ آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں کہ جلنے کی بودینے سے پہلے ہانڈی کو بہت دیر تک چولھے کی آگ برداشت کرنی پڑتی ہے۔
صدر محفل ، اردو نیوز و ملیالم نیوز کے ایڈیٹر انچیف نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ میں عالمی اردو مرکز کو اتنی خوبصورت محفل منعقد کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ نعیم بازید پوری اچھے انسان اور بہترین شاعر ہیں۔ ان کے لئے منعقدہ جشن میں شرکت کر کے مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔
عالمی اردو مرکز کے صدر اطہر نفیس عباسی نے مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ اراکین عالمی اردومرکز قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے آج ارضِ مقدس پر اردوزبان و ادب کے یارِ طرحدار کوایک نئی طرح جشنِ اعزاز عطا کی ہے ۔
صاحب جشن نعیم بازید پوری نے اشعار پڑھ کر سماں باندھ دیا:
لکھنے والے نے مرے بخت میں کیا کیا لکھا
میں نے جب رات لکھی، اُس نے اُجالا لکھا
میں نے لکھا کہ لق و دق ہے یہ صحرائے وجو
اس نے صحرا کو پڑھا ، کاٹ کے ذرہ لکھا
شدت درد میں آئی نہ کمی کوئی نعیم
درد پھر درد رہا، الٹا یا سیدھا لکھا
٭٭٭
تم جسے اتنا قریبِ رگِ جاں لکھتے ہو
نام لکھتے ہو نہ کچھ اس کا نشاں لکھتے ہو
جس کی خاطر یہاں ہر بات لکھی ہے تم نے
اس کے بارے میں کوئی بات کہاں لکھتے ہو
٭٭٭
اسے کہنا کہ خاموشی میں بھی رنگِ سخن رکھے
اسے کہنا کہ تنہائی کو رشکِ انجمن رکھے
اسے کہنا مسافر راستہ بھی بھول جاتے ہیں
اسے کہنا کہ منزل کو نہ پابندِ زمن رکھے
اسے کہنا کہ ڈورے ڈالتی ہیں یہ ہوائیں بھی
اسے کہنا کہ نہ ڈوروں پروہ اپنے پیرہن رکھے
اسے کہنا جنوں کی قدر ہشیاری سے بہتر ہے
اسے کہنا خرد میں بھی ذرا دیوانہ پن رکھے
اسے کہنا تردد سے مسائل حل نہیں ہوتے
اسے کہنا کہ پیشانی ہمیشہ بے شکن رکھے
اسے کہنا توقع ایک ا مکانی سی صورت ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: