Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ الیکشن میں شکست، پی ڈی ایم میں اب کس کا بیانیہ چلے گا؟

تجزیہ کار منیب فاروق کے مطابق 'اب پی ڈی ایم کی قیادت کی سیاسی سوجھ بوجھ کا اصل امتحان شروع ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قیام سے اب تک کے تمام اہم فیصلوں سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مختلف موقف سامنے آئے۔ ہر دفعہ یہ تاثر ملا کہ اس بات پر تو اتحاد میں دراڑ پڑ ہی جائے گی۔ 
ایسی صورت حال میں پی ڈی ایم کا سربراہ اجلاس ہو یا سٹئیرنگ کمیٹی کی میٹنگ، اختتام پر پیپلز پارٹی کا موقف تسلیم کرکے بظاہر سخت رویہ رکھنے والی ن لیگ اور جے یو آئی نرم موقف والی پیپلز پارٹی کے ہاتھوں قائل ہوکر باہر نکلتے اور عمومی تاثر کے برعکس اعلان کرتے۔ جس سے یہ تاثر مزید تقویت پکڑ گیا کہ پی ڈی ایم فی الوقت پیپلز پارٹی کے بیانیے پر چل رہی ہے۔ 
اسمبلیوں سے استعفوں کی بات ہو یا لانگ مارچ کا اعلان، ضمنی انتخابات اور سینیٹ کے بائیکاٹ کا معاملہ ہو یا پنجاب میں حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی، سینیٹ میں عہدوں کی تقسیم ہو یا باقی سینیٹ انتخابات کے حوالے سے حکومتی اقدامات کی بیخ کنی ان تمام مراحل میں عموماً پیپلز پارٹی کا موقف ہی پی ڈی ایم کا موقف قرار پایا۔ 

 

اس بات کی تصدیق نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان اور لیگی رہنما محمد زبیر نے بھی کی۔
اردو نیوز سے گفتگو میں محمد زبیر نے کہا کہ 'پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر ابتدا میں بہت سارے آپشنز تھے۔ ہم سب سے بڑی جماعت تھے اور ہمارا بیانیہ بھی سخت تھا۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ مختلف موقف کے ساتھ آئی۔ ہم اسمبلیوں سے استعفے، ضمنی اور سینیٹ انتخابات کا بائیکاٹ چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی نے ضمنی انتخابات اور سینیٹ کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ پیپلز پارٹی نے ہمیں قائل کیا کہ استعفے اور بائیکاٹ مناسب سیاسی فیصلہ نہیں ہے۔
ان کے مطابق ’یہ سلسلہ اس تواتر سے آگے بڑھا کہ خود ن لیگ کی صفوں سے یہ آوازیں آنا شروع ہوگئیں کہ پیپلز پارٹی بلکہ آصف زرداری اپنی ماہرانہ سیاسی حکمت عملی کے تحت پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سب کچھ پیپلز پارٹی کو دلوانے میں کامیاب ہو رہے ہیں جبکہ ن لیگ محض متحارب دھڑا بن کر رہ گئی ہے۔ اسی صورتحال کے تناظر میں مریم نواز نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ 'ن لیگ لمبی ریس کا گھوڑا ہے۔'
محمد زبیر نے بتایا کہ 'مسلم لیگ ن اسمبلیوں سے استعفے چاہتی تھی۔ لیکن باقی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی کا موقف اس کے برعکس تھا۔ ہم نے کہا کہ حکومت اتنے حلقوں میں ضمنی انتخابات نہیں کروا سکے گی۔ جس پر پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ اگر کروا دیے تو کیا کریں گے؟‘
’ظاہر ہے ہم سیاست پر بات کر رہے تھے سائنس تو ڈسکس نہیں ہو رہی تھی اس لیے بڑی جماعت ہوتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے ہم نے ان کی بات مانی۔ ہم سب کو پہلے دن سے پتہ تھا کہ ہم نے ایک دوسرے کو فیور نہیں دینی لیکن ایک دوسرے کی بات مان کر ہی اتحاد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سینیٹ انتخابات کے ساتھ جڑے تنازعات کے بارے میں بیانیے میں بھی فرق پایا جاتا تھا (فوٹو: اردو نیوز)

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سینیٹ انتخابات کے ساتھ جڑے تنازعات کے بارے میں بیانیے میں بھی فرق پایا جاتا تھا۔ مریم نواز متعدد مرتبہ ایجنسیوں کی مداخلت کا الزام لگا چکی ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا موقف تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے۔
ویڈیوز سامنے آنے اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اکثریت کے باوجود شکست ہونے، بالخصوص ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں حکومتی امیدوار کو 54 ووٹ ملنے کے بعد پیپلز پارٹی کے بیانیے کو دھچکا لگا ہے۔ 
ایسے میں اب پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور پی ڈی میں کس کا بیانیہ چلے گا۔ اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی بظاہر یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ پی ڈی ایم کی پہلی آل پارٹیز کانفرنس کے متفقہ اعلامیہ کے مطابق مشترکہ جدوجہد جاری رہے گی جس میں لانگ مارچ سمیت ایوانوں کے اندر اور باہر جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما چوہدری منظور نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'اے پی سی اعلامیہ کی روشنی میں کس کا بیانیہ چلے گا کا سوال ہی غلط ہے۔ سیاسی جماعتوں کے موقف اور بیانیے الگ ہوتی ہیں اور جب وہ کسی اتحاد کا حصہ بنتے ہیں تو ان کو متفقہ مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے کبھی سختی اور کبھی نرمی لانا پڑتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'اے پی سی کے فیصلوں کی روشنی میں لانگ مارچ بھی ہوگا۔ حکومت کو ہٹانے کے لیے تمام قانونی راستے بھی اپنائے جائیں گے۔ پی ڈی ایم کا مشترکہ موقف اور مشترکہ بیانیہ ہوگا۔ لانگ مارچ کا فیصلہ ہو چکا ہے پیپلز پارٹی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

منیب فاروق کے مطابق ’آنے والے چند دنوں میں پی ڈی ایم کے فیصلے بتائیں گے کہ حکومت مخالف تحریک میں کتنا دم ہوگا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح مسلم لیگ ن کے محمد زبیر نے کہا کہ 'ایک بات طے ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر ہمارا موقف سخت تھا اور ہم کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے اور ہیں، لیکن پیپلز پارٹی ایک حد تک جانا چاہتی ہے۔ اس کے باوجود لانگ مارچ اور اس کے بعد استعفوں کے معاملے پر غور کا فیصلہ ہو چکا۔ سینیٹ میں عدم اعتماد پر ابھی غور ہی نہیں ہوا۔ باقی معاملات جوں جوں آگے بڑھیں گے ہم مل کر فیصلے کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ 'اب تک جو کچھ ہوا باہمی مشاورت سے ہوا۔ آئندہ بھی پی ڈی ایم اسی سلسلے کو لے کر آگے چلے گی اور مشترکہ بیانیہ لے کر چلے گی۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد پی ڈی ایم کی تینوں بڑی جماعتوں کے درمیان نہ صرف اختلافات سامنے آ سکتے ہیں بلکہ بیانیہ کی جنگ بھی زور پکڑ سکتی ہے۔ 
تجزیہ کار منیب فاروق کے مطابق 'اب پی ڈی ایم کی قیادت کی سیاسی سوجھ بوجھ کا اصل امتحان شروع ہوگا۔ آنے والے چند دنوں میں پی ڈی ایم کے فیصلے بتائیں گے کہ حکومت مخالف تحریک میں کتنا دم ہوگا۔

شیئر: