سعودی عرب کے حدود الشمالیہ ریجن کے صحراؤں میں ہاتھ سے کھودے گئے کنویں ایک نمایاں سنگِ میل کی حثییت رکھتے ہیں جو سخت حالات میں ابتدائی انسانی دانش اور قوت کا ثبوت ہیں۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق آبا و اجداد نے بڑی مشکلات سے ہاتھوں سے ایسے کنویں کھودپ تاکہ زیرِ زمین گہرائی میں پانی تک رسائی حاصل ہو جائے۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب کے قدیم کنویں جن کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیںNode ID: 734561
-
کیا سعودی عرب کے قدیم غار سیاحوں کے لیے کھولے جا رہے ہیں؟Node ID: 831476
کنویں کی دیواروں کو پتھروں سے مضبوط بناتے تھے۔ پانی نکالنے کے لیے بالٹیوں جیسے سادہ اوزار استعمال کیے جسے بعد میں جانوروں پر ’راویہ‘ کنٹینر میں ڈال کر منتقل کیا جاتا تھا۔
پورے خطے میں پھیلے ہوئے یہ کنویں انسانوں کی خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لینے کی صلاحتیوں کی کہانی سناتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کا رشتہ زمین سے کتنا گہرا ہے اور انہیں یہ کتنا عزیز ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے فطرت کے چیلنجوں کا کس طرح مقابلہ کیا۔
ریسرچر اور تاریخ دان عبدالرحمن التویجری کہتے ہیں کہ ’خطے میں دو ہزار سے زیادہ قدیم کنویں ہیں جنھیں ہزاروں سال پہلے کھودا گیا تھا۔ یہ ایک کے بعد آنے والی دوسری تہذیب کا ثبوت ہیں اور اس بات کی گواہی ہیں کہ ان صحراؤں میں انسان بہت قدیم زمانے سے رہتا رہا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ صرف قریہ لینہ میں 300 ایسے کنویں ملے ہیں جو زندگی کے لیے انتہائی ضروری تھے۔ اس سے بھرپور انسانی تاریخ اور مشکلات کو جھیلنے والے طاقتور انسانی جذبے کی عکاسی ہوتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی کنویں جدید دیہات کا حصہ بن گئے ہیں لیکن یہ پرانے کنویں سعودی ورثے کے سنگِ میل کی حثییت رکھتے ہیں اور ان میں سیاحوں کے لیے دلچسپی کا سامان بھی ہے۔ اس سے ثقافتی آگاہی بھی بڑھتی ہے اور سیاحت بھی فروغ پا رہی ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق یہ کنویں جو تاریخ کے آئینہ دار ہیں، انسانی وراثت بھی ہیں جسے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ہر قیمت پر محفوظ بنایا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے آبا اجداد کی کوششوں کی صحیح قدر کر سکیں جنہوں نے صحراؤں میں زندگی کا آغاز کیا اور اسے آگے بڑھایا۔