Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: ابھی امتحان اور بھی ہیں

امید ہے کہ پچھلا ماہ وزیراعظم کے لیے wake up call  ثابت ہو گا کیونکہ ’ابھی امتحان اور بھی ہیں‘ (فوٹو: پی ایم آفس)
سینیٹ کا انتخاب اور پھر سینیٹ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کا چناؤ اختتام پذیر ہوا ہے ۔ حکومتی حمایت یافتہ امیدواروں نے کامیابی تو حاصل کی ہے مگر یہ امر قابل ذکر ہے کہ کامیاب ہونے والے حکومتی پارٹی کے امیدوار نہیں بلکہ حمایت یافتہ ہیں۔
اکثریتی پارٹی ہوتے ہوئے بھی دونوں عہدوں کی قربانی کو کامیابی سے زیادہ مجبوری ہی سمجھا جا رہا ہے۔ آگے بھی حکومت کے لیے مجبوریاں اور امتحان باقی ہیں۔
ان میں سب سے پہلے قانون سازی کا امتحان ہے۔ پچھلے ماہ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں حکومتی اکثریت ڈولتی نظر آئی ہے۔ وزیراعظم کا اعتماد کا ووٹ اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں کامیابی ایک طرف اوپن ووٹنگ اور دوسری طرف سات مسترد شدہ اور متنازع ووٹوں کی بدولت ہے۔

 

گویا قومی اسمبلی کو اوپن ووٹ سے سنبھالنے کے بعد سینیٹ بھی مسترد شدہ ووٹوں سے سنبھلا ہے۔ اب یا تو یہ ووٹ حادثاً یا اتفاقاً مسترد ہوئے ہیں جس صورت میں تو ٹیکنیکلی اپوزیشن کو عددی برتری حاصل ہے جس کے نتیجے میں چیئرمین کی کرسی اور قانون سازی دونوں میں ہی مشکل بدستور رہے گی۔
دوسری صورت (جس کا زیادہ امکان ہے) میں یہ ووٹ باقاعدہ منصوبے کے تحت قصداً غلط ڈالے گئے۔ اس میں بھی حکومت کے لیے ریلیف کم ہی ہے۔ یہی سات لوگ یا دیگر چھوٹی پارٹیاں بدستور کنگ میکر یا بادشاہ گر کا کردار ادا کرتی رہیں گی۔ ہر دو صورتوں میں قانون سازی کے لیے پہلے کی طرح بیرونی سہاروں کی ضرورت بھی بدستور رہے گی۔
دوسرا اہم امتحان سیاسی ہے۔ یہ مقابلہ کھلے عام بھی ہے اور پس پردہ بھی۔ کھلے عام تو حکومت کا پلہ ابھی تک بھاری ہے کہ اپوزیشن بڑا ہجوم اکٹھا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی مگر پس پردہ پی ڈی ایم خصوصاً پی پی پی نئی صف بندیوں کی شنید کے ساتھ متحرک ہے۔ اس کے ساتھ ہی ن لیگ میں اعلیٰ سطح کی گرفتاریوں کی بھی خبریں ہیں۔ کیا یہ گرفتاریاں حکومت کو سیاسی اعتماد اور سہارا دے سکیں گی؟ اور کیا ان کا براہ راست اثر اپوزیشن کے لانگ مارچ پر پڑے گا؟  شاید مستقبل قریب میں کچھ حد تک مگر اپوزیشن کے اب دباؤ کم کرنے کے امکانات کم ہیں۔

حکومت کو سب سے پہلے قانون سازی کا امتحان درپیش ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومتی اکثریت ڈولتی نظر آئی (فوٹو: اے پی پی)

سیاسی میدان میں پنجاب کے قلعے پر بھی ہر وقت ہی مہم جوئی کی امکانات رہتے ہیں، ایک دفعہ پھر بزدار سرکار تبدیلی کی افواہوں کی زد میں ہے۔ اتحادیوں خصوصاً ق لیگ کے سیاسی کردار کا بڑھنا پی ٹی آئی کے لیے ایک سیاسی چیلنج ہی ہے جس سے اس کی سیاسی پوزیشن مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہی ہوئی ہے۔
ن لیگ نے البتہ عندیہ دیا ہے کہ وہ اگر کسی اور پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت گرا بھی سکتی ہو تو نہیں گرائی گی اور پنجاب میں بلا شرکت غیرے ہی اقتدار میں آئے گی۔ اس سیاسی اعتماد کا اثر ان دعوؤں میں بھی نظر آرہا ہے جو مریم نواز ن لیگ کے آئندہ ٹکٹ کے بارے میں کر رہی ہیں۔ اس لیے بزدار سرکار جتنی دیر بھی رہے اس کو بونس ہی سمجھا جا رہا ہے۔

ن لیگ میں اعلیٰ سطح کی گرفتاریوں کی بھی خبریں ہیں۔ کیا یہ گرفتاریاں حکومت کو سیاسی اعتماد اور سہارا دے سکیں گی؟ (فوٹو: اے ایف پی)

تیسرا اہم امتحان انتظامی ہے۔ سیاسی مسائل اس وقت سنگین ہو جاتے ہیں جب گورننس کی کمزوریاں عوام کے لیے تکلیف دہ بن جائیں۔ ہر روز اشیائے ضروریات میں کسی نہ کسی کی مہنگائی کا چرچا ہوتا ہے۔ بجلی کی قیمت ابھی تک قابو میں آئی ہے اور نہ ہی پیٹرول میں کوئی خاطر خواہ ریلیف ملا ہے۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری جوں کی توں ہے۔ شہری سہولتوں میں دن بہ دن تنزلی کا ہی رجحان ہے۔ امن و امان اور  انتظامی اصلاحات پر تو اب بیان بھی نہیں آتے۔ بیانیہ سیاسی میدان میں تو کارگر ہوتا ہے مگر انتظامی میدان میں تو کارگردگی ہی اہم ہے۔
آئینی، سیاسی اور انتظامی امتحانوں سے نمٹنے کی ذمہ داری لیڈرشپ کی ہوتی ہے، حکومت کی آدھی مدت گذر چکی ہے۔ اب تو 2023 کا بھی ذکر ہونا شروع ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ پچھلا ماہ وزیراعظم کے لیے wake up call  ثابت ہو گا کیونکہ ’ابھی امتحان اور بھی ہیں۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں