Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’احتیاط لازم ہے‘

کورونا کی دوسری لہرپہلی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے (تصویر : اے ایف پی)
سنہ 2020 کا سال کورونا ہی کے نام ہے۔ جب سال کے شروع میں یہ وبا پھیلی اور مارچ کے وسط میں پاکستان میں لاک ڈاؤن ہوا تو بہت سی خوش فہمیاں بھی تھیں۔ مثلاً یہ کہ چند ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کی بات ہے پھر یا تو اس کا اثر کم ہو جائے گا یا پھر ویکسین آجائے گی۔ 
ویکسین پر کافی پیش رفت کے باوجود اس کا ٹرائل کئی مرتبہ روک کر پھر شروع کیا گیا ہے۔ اگلے سال کے وسط میں بھی اگر یہ عام دستیاب ہو جائے تو اس کو انسانیت اپنی کامیابی سمجھے گی۔ 
 
جیسا کہ سائنس دانوں نے خبردار کر رکھ تھا ہو بہو ویسے ہی اب پوری دنیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کا دور دورہ ہے۔ برطانیہ میں ایک ماہ کا لاک ڈاؤن شروع کرنے کا اعلان ہو چکا ہے ۔ اسی طرح فرانس، جرمنی اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی کیسز بڑھ رہے ہیں۔ 
کئی ملک جن میں امریکہ اور انڈیا شامل ہیں وہاں تو ابھی پہلی لہر کا ہی اثر جاری ہے۔ اگست اور ستمبر میں جو کاروباری سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوئی تھیں ان میں پھر تعطل آ گیا ہے۔
 پاکستان میں بروقت اقدامات، احتیاط اور قدرت کی مدد سے پہلی لہر کی اٹھان اتنی بھرپور نہیں تھی جس قدر اندازے لگائے گئے تھے۔ اس کا کریڈٹ حکومت اور عوام دونوں کو ہی جاتا ہے۔ 
وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں نے بھی کافی ایکٹیو ہو کر کام کیا۔ دوسری لہر میں البتہ سکون اور بے پروائی نمایاں ہے۔ اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان کی طرف سے کچھ  اعلانات اور وارننگز کے علاوہ کوئی قابل قدر قدم نہیں اٹھایا گیا۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا سے اب تک دنیا بھر میں 4 کروڑ 64 لاکھ 26 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

سوشل ڈسٹنسنگ کی اپیلیں کی جا رہی ہیں لیکن ذمہ دار حکومتی شخصیات خود اس پر کتنا عمل کر رہی ہیں، اس کے لیے آپ کو صرف اپنی ٹی وی سکرینز پر کسی بھی نیوز چینل کی تین منٹ کی ہیڈ لائنز سے ہو جائے گا۔ وزیراعظم بذات خود جلسوں  کنونشنز اور اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں۔  
 پی ڈی ایم اور ن لیگ کا تو جلسوں کا ایک طویل پروگرام ہے اس کے ساتھ گلگت بلتستان میں بھی بھر پور سیایسی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اپوزیشن پر بھی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ اس وقت کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے اپنے پروگراموں کو محدود کرے۔ 
شروع کے جلسوں کے نتیجے میں اثرات محدود ہو سکتے ہیں مگر جیسے جیسے کیس بڑھیں گے تو مزید جلسے کیسز کو کئی گنا بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔  دوسری طرف حکومت کرونا پابندیوں کو اپوزیشن کے جلسوں پر نافذ کرنے کی تو کوشش کر رہی ہے مگر اپنے اوپر لاگو کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔  

کورونا سے متاثر ہونے والے ممالک میں امریکہ اور انڈیا کے بعد برازیل تیسرا بڑا ملک ہے (فوٹو: اے ایف پی)

حکومت کی عدم دلچسپی کا ڈائرکٹ اثر عوام پر پڑتا ہے اور عوام تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ چکے ہیں۔ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی شادیوں کا سیزن بھی شروع ہو گیا ہے اور وہاں بھی ایس او پی پر عمل درامد تقریباً صفر ہے۔ 
یہی حال عام بازاروں اور پبلک ٹرانپسورٹ کا ہے جہاں پر ایس اوپیز کا دور دور تک کوئی ذکر تک نہیں۔ سکولوں میں ابھی مروجہ آدھی تعداد کی آمد پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی۔ یہی فیصلہ مذہبی اجتماعات اور وفات کی رسومات کے بارے میں کرنا ہو گا جہاں پر میل ملاقات ضروری سمجھا جاتا ہے۔  
 یہ تمام فیصلے اسی صورت میں ہوں گے جب ہم حکومتی اور عوامی سطح پر اس بات کا ادراک کریں گے کہ کورونا کی دوسری لہر بھی اتنی ہی خطرناک ہے جتنی پہلی تھی۔ ذاتی طور پر کورونا سے متاثر ہونےکے پانچ ماہ بعد بھی ابھی تک میں کورونا کے اثرات کھانسی اور کمزوری کا سامنا کر رہی ہوں ۔ 
کورونا کی وبا حقیقی اور نقصان دہ ہے، چاہے یہ نقصان جان کا ہو یا صحت کا۔ اور کورونا سے متاثرہ انسان اگر صحت مند بھی رہے تو دوسروں کو متاثر کر کے ان کی زندگی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ دوبارہ ہسپتالوں سے تشویش ناک خبریں آرہی ہیں اس لیے احتیاط ہی اس کا واحد حل ہے ورنہ پہلی لہر سے بچاؤ کے ثمرات بھی ضائع ہوں گے اور نقصان جانی بھی ہو گا اور مالی بھی۔

شیئر: