Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: ہنگامی موڈ آن ہوگیا ہے

کورونا کی عالمی وبا کا ظہور چین کے شہر ووہان سے ہوا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
کورونا وائرس اور اس سے جڑی خبروں نے مکمل طور پر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کرہ ارض میں گنتی کے چند ملک ایسے بچے ہیں جہاں یہ وائرس ظاہر نہیں ہوا لیکن اگر نیوزی لینڈ جیسے دنیا سے کٹے ہوئے ملک میں کورونا پہنچ گیا ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس دھرتی پر کوئی ملک، کوئی براعظم بالآخر اس سے بچ نہ پائے گا۔
یقین مانیں تو اب تو کبھی کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ کیا ہمیں یاد بھی رہے گا کہ کورونا وائرس سے پہلے کی دنیا کیسی تھی۔ ایک وائرس کہنے کو تو اتنا حقیر کہ انسانی نظر سے اوجھل ہے لیکن درحقیقت اس قدر طاقتور ہے کہ اشرف الخلوقات کو بے بس کر رکھا ہے۔
اس وبا کے پھوٹنے کے عرصے کے دوران، بنی نوع انسان بے نقاب ہوگئے ہیں اور انسانی نفسیات کے کئی روپ عیاں ہوئے ہیں۔
کہیں یہ روپ بہت  خود غرض ہے، جس کی جھلک ہمیں دنیا بھر کے مختلف بازاروں اور شاپنگ مالز میں بد تمیزی کو چھوتے ہوئے رویوں میں نظر آتی ہے۔ ہینڈ سینیٹائزر اور دیگر ضروری اشیا ذخیرہ اندوزوں نے ناپید کر دی ہیں اور خوف سے منافع کمانے کی تجارت  زور و شور سے جاری ہے۔
وہیں آدمی کا ایک روپ بہت بے لوث اور بے غرض بھی ہے، جو ہمیں ان تمام ڈاکٹرز، نرسز اور میڈیکل سٹاف کی صورت میں نظر آتا ہے جو ہسپتالوں میں بے جگری سے کام کر رہے ہیں۔ جانتے ہیں کہ تمام تر حفاظتی تدابیر کے باوجود وائرس ان پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔
انسانیت ان تمام لوگوں کی شکر گزار ہے جو اس خوف کی فضا میں بھی گھروں میں قرنطینہ میں نہیں بیٹھے بلکہ اپنے اپنے شعبوں میں چاہے وہ طب ہو، قانون کے نفاذ کے ادارے ہوں۔ دوسروں کی مدد کرنے اور ان کی زندگیوں کو سہل بنانے میں کوشاں ہیں۔
کورونا کے بعد، جہاں آج  زمین کے طول و عرض میں ایک عام آدمی کے دل میں غیر یقینی اور ناامیدی  جگہ بنا رہی ہے۔ کیونکہ  ظاہر ہے کہ کچھ معلوم نہیں کہ یہ بلا کب ٹلے گی، کیسے ٹلے گی اور کب تک منڈلاتی رہےگی۔ وہیں انسان آج پہلے سے کئی گنا بااعتماد، پر امیداور صاحبِ وسیلہ بھی ہے کہ ایسی وبا کا مقابلہ کر سکے، اس کا توڑ ڈھونڈ سکے۔

انسان سائنسی علم کے اس دور سے گزر رہا ہے جہاں اس کا علاج ڈھونڈ ہی لیا جائے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

کل شہرہ آفاق کتاب ’سیپینز‘ کے مصنف یوول ہریری کا انٹرویو سنا جو کہہ رہے تھے کہ بے شک کورونا وائرس گذشتہ سو سالوں میں دنیا میں پھوٹنے والی بد ترین وبا ہے لیکن انسان سائنسی علم کے اس دور سے گزر رہا ہے جہاں اس کا علاج ڈھونڈ ہی لیا جائے گا۔
اس سے پہلے جب بھی وبائیں پھیلتی تھیں تو وہ لاکھوں لوگوں کو نگل جاتی تھیں۔ سو انسان کا ایک روپ جہاں بالکل شل ہو کر گھروں میں قید ہے وہیں دوسرا روپ اس کے علاج کی تلاش میں متحرک بھی۔
دنیا پر اتنی بڑی افتاد آن پڑی ہے لیکن بطور پاکستانی ہم اپنی  نوعیت کی ایک انوکھی قوم ہیں۔ اسے بیوقوفی  کہا جائے، جی داری یا توکل پسندی کہ جہاں دنیا بھر میں کورونا سے سہمے لوگ چوکس ہوگئے وہاں ہم لوگ بھرپور طریقے سے اپنی روایتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 حسبِ عادت سنگین حالات میں بھی مزاح کا پہلو نکال لینے کا جو انوکھا وصف بدرجہ اتم  ہم میں پایا جاتا ہے، اس مزاح سے شاید انفرادی طور پر ہم میں سے ہر کوئی اپنی تئیں کورونا کا مقابلہ کر رہا ہے۔
یا شاید تیسری دنیا سے تعلق رکھنے کے باعث ہماری عام عوام کا رویہ گویا اس مصرعے کے مصداق ہے کہ  ’مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں۔‘ یعنی ٹھیک ہے جب سر پر پڑے گی، جو ہوگا جیسا ہوگا دیکھا جائے گا۔

اس پورے بحران میں پاکستان کے ریاستی ماڈل کی کمزوریاں اور صلاحیتیں دونوں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

چلیں عوام تو خدا پر توکل کیے بیٹھی ہے لیکن اس پورے بحران میں پاکستان کے ریاستی ماڈل کی کمزوریاں اور صلاحیتیں دونوں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ وفاقی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی ہے کہ اس نے کورونا کے گڑھ چین سے اس وائرس کو یہاں منتقل نہیں ہونے دیا۔ لیکن یہ وائرس کسی دوسرے بارڈر سے ملک میں داخل ہوسکتا ہے یا زائرین کے ذریعے اس پیمانے پر پھیل جائے گا، حکومت اس کااندازہ نہ لگا سکی اور نہ ہی مناسب پیش بندی کر سکی۔
اب جب پاکستان میں کورونا کے کیسز تیزی سے بڑھنے کے خدشات ہیں تو حکومت نے ہنگامی موڈ آن کر لیا ہے ۔
قومی سلامتی کمیٹی کی جو میٹینگ کورونا کا پہلا کیس منظرعام پر آنے کے فورا بعد بلائی جانی چاہیے تھی وہ 15 دن بعد بلائی گئی۔ جس بین الصوبائی اور بین اداراجاتی کوارڈینیشن کمیٹی کا قیام دو دن پہلے کیا گیا ہے وہ اگر پہلے قائم کر دی جاتی تو صوبائی حکومتوں کی کارکردگی میں جو یگانگت اورکوارڈینیشن کا فقدان دکھائی دیتا ہے وہ نہ ہوتا۔

حکومت سندھ کےاقدامات پر مبنی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ نے پاکستان کے ردعمل پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

یہاں سندھ حکومت کی تعریف نہ کی جائے تو زیادتی ہوگی۔ جس برق رفتاری سے فیصلے کیے گئے اس نے پیپلز پارٹی کے سخت ترین ناقدین کو بھی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حکومت سندھ کےاقدامات پر مبنی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ نے پاکستان کے رسپانس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پہلا کیس رپورٹ ہوتے ہی، وفاق کی چھتری تلے تمام صوبے ایک دوسرے کی تجاویز اور تجربے سے فائدہ اٹھا کر ایک یکساں قومی پالیسی اپنا لیتے۔
تعجب کی بات ہے کہ پاکستان کے تین صوبوں کی قیادت نے تو اس پورے معاملے میں میڈیا کو اینگیج کیا، سوالات کے جوابات دیے، کورونا کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات سے با خبر رکھا لیکن 12 کروڑ کی آبادی کے صوبے پنجاب کی قیادت خود کو کسی بھی قسم کے احساس جواب دہی سے بالاتر سمجھ رہی ہے۔
وزیر اطلاعات پنجاب کی سنجیدگی کے حوالے سے کیا کہا جائے لیکن یاسمین راشد جیسی ذمہ دار وزیر بھی نظر نہیں آرہیں۔ سوالات کے لیے اگر رابطہ کریں تو وہ دستیاب نہیں ہیں۔ پنجاب کے عوام، حکومت پنجاب کے کورونا کے تدارک کے لیے اٹھائے جانے والےاقدامات سے مکمل طور پر لاعلم دکھائی دیتے ہیں۔

’خدا ہم سب کو کورونا سے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔‘ فوٹو: اے ایف پی

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر ہم دنیا میں کورونا کے پھیلاؤ کے رحجانات دیکھیں تو دنیا کے طاقتورسے طاقتور ترین، بھر پور وسائل رکھنے والے ممالک بھی اس کے پھیلاؤ کو روک نہیں سکے ہیں۔ فرق ہے تو صرف اس سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کے لیے کی گئی فیصلہ سازی اور اپروچ میں۔
کورونا کا یہ وائرس جتنا دنیا کے لیے نیا ہے اتنا ہی پاکستان کے لیے بھی۔ پوری دنیا ہی اس آفت سے ایک ساتھ  بہت کچھ سیکھ رہی ہے۔ غلطیاں  بھی کر رہی ہے اور ان غلطیوں کو سدھار بھی رہی ہے۔  ایسے بحران میں ہی لیڈرشپ ابھرتی ہے اور کئی بحران فیصلہ سازی کی کمزوریوں کے باعث قیادت کو لے بھی ڈوبتے ہیں۔
کورونا کے پیش نظر پاکستان کی سیاسی قیادت کو جو یہ نیا اتحاد نصیب ہوا ہےاور کوارڈینیشن قائم ہوئی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ یہ صرف اسی ایک وائرس کے تدارک تک محدود نہ رہے۔
کاش کہ کورونا کے ظہور سے پہلے کا پاکستان اوراس کو مل کر شکست دینے کے بعد کا پاکستان پہلے کے مقابلے میں متحد، میچیور اور وسیع النظر ہو۔
خدا ہم سب کو کورونا سے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

شیئر: