Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں پرانے بلدیاتی اداروں کی بحالی پیچیدہ معاملہ کیوں؟ 

مبصرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کئی حل طلب قانونی سوالات پیدا ہوگئے ہیں (فوٹو: پنجاب حکومت)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا جس کے بعد صوبہ بھر کے ضلع کونسلرز اور یونین کونسلرز بحال ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد صوبے میں رائج بلدیاتی نظام کو بدلنے کا اعلان کیا تھا اور 2019 میں اسمبلی کے ذریعے ایک قانون پاس کیا جس سے ناصرف 2013 میں ن لیگ کی حکومت کا پرانا بلدیاتی قانون ختم کر دیا گیا بلکہ تمام بلدیاتی ادارے بھی تحلیل کر دیے گئے۔ 
ان حکومتی اقدامات کے خلاف اس وقت کے ختم ہونے والے بلدیاتی نمائندوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان کی درخواست جزوی طور پر قبول کرتے ہوئے نئے بلدیاتی ایکٹ کی شق تین کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قراردے دیا۔ شق تین بنیادی طور پر منتخب نمائندوں کو ختم اور پرانے اداروں کو تحلیل کرنے سے متعلق ہے۔ اس حکم کے بعد پورے صوبے میں 58 ہزار سے زائد بلدیاتی نمائندے دوبارہ بحال ہو گئے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ بلدیاتی نمائندے اکثریتی طور پر مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد ن لیگ کے قائد نواز شریف نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس عدالتی فیصلے کو سراہا بھی ہے۔

بات اتنی بھی سادہ نہیں

سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ کے دور کے بلدیاتی نمائندے جن کو ختم کر دیا گیا تھا اب وہ دوبارہ اپنا کام شروع کردیں گے؟ اس کا جواب زاہد اسلم جو کہ لوکل گورنمنٹ ریسورس سینٹر نامی ایک ادارہ چلا رہے ہیں وہ کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ ’سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ صرف ایک لحاظ سے بہتر ہے کہ جو بھی بلدیاتی نمائندے منتخب ہو کر آئیں ان کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے اور ان کو کوئی بھی قبل از وقت برخواست نہ کرے، لیکن اس فیصلے میں تکنیکی طور پر ایسی کئی چیزوں کا خیال نہیں رکھا گیا جنہوں نے خود اس فیصلے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔‘ 
زاہد اسلم جو کہ تھینک ٹینک چلانے کے ساتھ ساتھ حکومت کو مختلف ادوار میں بلدیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی دیتے رہے ہیں انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’سپریم کورٹ نے د وہزار انیس کا موجودہ حکومت کا قانون بالکل ختم نہیں کیا بلکہ صرف ایک شق ختم کی ہے اس وقت نافذالعمل قانون دوہزار انیس کا ہی ہے، لیکن بحال ہونے والے ادارے اور منتخب نمائندے دوہزار تیرہ کے قانون کے تحت منتخب ہوکر آئے، جبکہ دوہزار انیس کے قانون میں توضلع کونسلز یا یونین کونسلز ہیں ہی نہیں۔ اب جیسے لاہور کی ضلع کونسل کے بجائے میٹروپولیٹن کونسل ہے جس کا میئر بحال ہوا ہے لیکن اس میئر کی ضلع کونسل بحال نہیں ہوئی۔ یا تو دوہزار تیرہ کا پورا قانون بحال کیا جائے جس کے تحت وہ منتخب ہو کر آئے تھے۔لیکن سپریم کورٹ کسی اسمبلی کا بنایا ہوا پورے کا پورا قانون ختم یا بحال نہیں کر سکتی۔‘ 

ان حکومتی اقدامات کے خلاف اس وقت کے ختم ہونے والے بلدیاتی نمائندوں نے عدالت سے رجوع کر لیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’دوسرے لفظوں میں اس وقت رائج الوقت قانون دوہزار انیس کا ہے تو یہ بحال ہو کر کہاں جائیں گے؟ کیونکہ نہ اس وقت صوبے میں یونین کونسل کا وجود ہے نہ ہی ضلع کونسل کا۔ میرا خیال ہے کہ ان کو ایڈمنسٹریٹر لگا دیں گے۔ اب نئے الیکشن کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ ایک اور بڑا بنیادی سوال ہے کہ دو ہزار تیرہ میں جو قانون بنا اس کے تحت دو ہزار پندرہ اور سولہ میں الیکشن ہوئے۔ اس وقت بلدیاتی اداروں کی مدت پانچ سال تھی۔ دوہزار انیس کے نئے قانونی میں یہ مدت اب چار سال ہے۔ یعنی ایک طرح سے پرانے قانون کے تحت ان کی مدت دسمبر دو ہزار اکیس میں ختم ہونا تھی۔ جبکہ دو ہزار انیس کے قانون کے مطابق یہ مدت دسمبر دو ہزار بیس میں ختم ہو چکی ہے۔ حتی کہ ایڈووکیٹ جنرل نے بھی عدالت میں یہ نکتہ نہیں اٹھایا۔ یہ ساری ناقابل وضاحت قسم کی صورت حال ہے۔‘ 
مبصرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے کئی حل طلب قانونی سوال پیدا ہو گئے ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔ دوسری طرف وزیر اعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ آنے کے بعد ہی اس معاملے پر قانونی حکمت عملی طے کی جائے گی۔‘ جبکہ پنجاب کے وزیر بلدیات راجا بشارت نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ ہم نے ابھی تک میڈیا پر ہی دیکھا ہے جب تحریری فیصلہ موصول ہو جائے گا تو ہی بہتر طریقے سے بات کی جا سکے گی۔ ابھی تک میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ کافی ابہام ہیں جن کو عدالت ہی دور کر سکتی ہے۔ ‘

سپریم کورٹ نے جمعرات کو پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آئینی ماہرین بھی اس معاملے کو ایک پیچیدہ صورت حال سے تعبیر کر رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق سیکرٹری اور آئینی وکالت کے ماہر رانا اسداللہ سمجھتے ہیں کہ ’کیس بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ یہ جو بھی پیجیدگیاں اس فیصلے سے پیدا ہوئی ہیں وہ عدالت کے روبرو دوبارہ لائی جائیں گی۔ اس سارے میں معاملے میں یہ بھی دیکھنا ہے کہ پانچ برسوں کے حوالے سے بھی ان نمائندوں کے پاس صرف سات ماہ باقی ہیں۔ اس کے بعد ان کی مدت ختم ہوجائے گی۔ جبکہ دو ہزار تیرہ کے قانون کے تحت جو چار ہزار یونین کونسلز بنائی گئی تھیں ان کے پچاس فیصد دفاتر تو کرائے پر لیے گئے تھے۔ تحلیل ہونے کے بعد وہ دفاتر بھی ختم ہوگئے نئی حکومت نے ویلج کونسلز متعارف کروا دی ہیں۔ اب ان یونین کونسلز کو بحالی کرنے اور دفاتر کی آباد کاری بھی ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔‘ 
چونکہ بحال ہونے والے اٹھاون ہزار بلدیاتی نمائندوں کی اکثریت کا تعلق اپوزیشن پارٹی ن لیگ سے ہے اس لیے سیاسی مبصرین اس کو ایک دوسرے رنگ میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس سے مسلم لیگ ن کی پوزیشن صوبے میں مستحکم ہوگی۔ 

شیئر: