Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ معاہدے کا فائدہ مشرق وسطیٰ کو ہوگا‘

وزیر خارجہ کے مطابق یہ معاشی، سماجی اور سکیورٹی کے نقطہ نظر بہت زیادہ مددگار ہوگا۔ (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ طور پر تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کا فائدہ مشرق وسطیٰ کو ہوگا، تاہم اس کا انحصار فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن معاہدے کی پیش رفت پر ہے۔  
سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں شہزادہ فیصل بن فرحان کا  کہنا تھا کہ ’خطے میں اسرائیل کے سٹیٹس کی نارملائزیشن پورے خطے کے لیے بہت زیادہ فائدے کا باعث ہوگی۔ یہ معاشی، سماجی اور سکیورٹی کے نقطہ نظر سے بہت زیادہ مددگار ہوگی۔‘
تاہم سعودی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی ممکنہ معاہدہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کوئی پیش رفت ہوتی ہے اور فلسطینیوں کو 1967 کی سرحدوں پر مشتمل خود مختار ریاست کا درجہ ملتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ’حتیٰ کہ اس سے قبل بھی ہمارے پاس فیض انیشیٹیو تھا جسے مملکت نے 1980 میں اسرائیل کے ساتھ مکمل اور معمول کے تعلقات کے امکان کو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے بدلے پیش کیا تھا۔‘
’مجھے نہیں پتہ کہ (کوئی معاہدہ) ہونے کو ہے یا نہیں۔ لیکن اس کا بہت زیادہ انحصار امن کے عمل پر ہے۔‘
شہزادہ فیصل نے کہا ’میز پر بحالی کا معاہدہ موجودہ ہے۔ اور ایسا 2002 سے ہے۔ اس معاہدے کا نام عرب امن معاہدہ ہے۔ حتٰی کہ اس سے قبل بھی فیض پلان تھا جسے سعودی عرب نے 1982 میں پیش کیا تھا جو فلسطینی مسئلے کے منصفانہ حل کے بدلے میں تعلقات کی مکمل بحالی کی تجویز ہے۔‘
سعودی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اب خطے میں بحالیِ تعلقات اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب ہم فلسطینیوں کے مسئلے کو حل کریں۔ 1967 کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست قائم ہوجائے جس میں فلسطینی وقار کے ساتھ رہ سکیں اور انھیں اپنے حقوق مل جائیں۔ ’اور اگر ہم اس راہ کو تلاش کر لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ خطہ بہت زیادہ محفوظ اور خوشحال ہو جائے گا جہاں اسرائیل سمیت ہر کوئی اس کی کامیابیوں میں اپنا کردار ادا کر سکے گا۔‘

متحدہ عرب امارات اور بحرین نے گزشتہ ستمبر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے معاہدے کیے (فوٹو: اے ایف پی)

جب ان سے اسرائیلی مسلمانوں کے بطور زائر مکہ جانے سے متعلق سوال پوچھا گیا تو شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ اس بات کا انحصار بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے عمل پر ہے۔
’ہم نے اس پر رضا مندی ظاہر نہیں کی لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان معاملے پر پیش رفت ہوتی ہے تو امید ہے کہ ہم نہ صرف بلکہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی شہریوں کو مملکت میں خوش آمدید کہیں گے۔‘
متحدہ عرب امارات اور بحرین نے گزشتہ ستمبر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے معاہدے کیے ہیں جن پر واشنگٹن میں دستخط ہوئے تھے۔
امارات اور بحرین مصر اور اردن (1979 اور 1994) کے علاوہ پہلے عرب ممالک بن گئے جنہوں نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کر لیا۔
فروری میں شہزادہ فیصل نے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کو بتایا تھا کہ سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ کمٹڈ ہے اور فلسطین کے لوگوں کے ساتھ ہے اور تنازعے کے حقیقی حل کے لیے ان کو سپورٹ کرتا ہے۔

شیئر: