Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دِلی: کورونا وائرس شہروں کی بیماری ’صرف خام خیالی‘

اب وبا انڈیا کے دیہی علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اگر آپ کو یہ لگتا ہو کہ کرونا وائرس صرف شہروں کی بیماری ہے، شہروں میں بسنے والے لوگوں کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے، وہ آلودہ ہوا میں سانس لیتے ہیں اس لیے ان کے پھیپڑوں کا حال پہلے سے ہی خراب ہوتا ہے تو آپ کو اس خوش فہمی میں رہنے سے کون روک سکتا ہے۔ آپ اپنی زندگی اسی انداز میں گزارتے رہیے جسیے ہمیشہ سے گزارتے رہے ہیں۔
لیکن سچ یہ ہے کہ اب یہ وبا انڈیا کے دیہی علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور افسوس کہ وہاں حفظان صحت کے نظام کا حال شہروں میں بسنے والے لوگوں کے پھیپڑوں سے بھی خراب ہے۔
اس لیے خطرہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہو سکتی ہے۔ شہروں میں حالات کچھ بہتر ہونا شروع ہوئے ہیں، آکسیجن کی سپلائی آہستہ آہستہ پٹری پر لوٹ رہی ہے۔
ہسپتالوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کیے جانے والے ان پیغامات کی تعداد کم ہوئی ہے کہ ’اب ہمارے پاس بس چند ہی گھنٹوں کی آکسیجن باقی ہے اگر سپلائی نہ ملی تو۔۔۔‘
اس میں کافی بڑا ہاتھ عدالتوں کا بھی ہے جنہوں نے سخت رویہ اختیار کیا ہے لیکن دوائیوں کی قلت بدستور جاری ہے، ہسپتالوں میں بیڈ ملنا اب بھی بس ایک لاٹری ہے، لگ گئی تو لگ گئی ورنہ آپ کو کبھی نہ کبھی تو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہی تھا۔

ہسپتالوں میں بیڈ ملنا اب بھی بس ایک لاٹری ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حالات کتنے خراب ہیں اس کا اندازہ صرف سرکاری اعداد و شمار سے نہیں لگایا جا سکتا۔ اب یہ بات تقریباً مکمل وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نئے انفیکشنز اور ان سے مرنے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ کتنی زیادہ، یہ شاید کبھی معلوم نہیں ہوگا۔
دیہات میں یہ حساب رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔ دیہی علاقوں سے آنے والی خبریں دل کو ہلانے کے لیے کافی ہیں۔ وہاں ٹیسٹنگ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے کم اہلیت والے مقامی ڈاکٹر کہیں مریضوں کا علاج نزلے اور بخار کے لیے کر رہے ہیں تو کہیں ٹائیفائیڈ کے لیے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ زیادہ تر مریضوں کو ڈاکٹر کے پاس جانے یا کسی باقاعدہ علاج کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بری خبر یہ ہے کہ جنہیں پڑتی ہے ان کا اکثر اوقات کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
اترپردیش اور بہار دونوں ہی غریب ریاستیں ہیں۔ دونوں کی سرحد کے قریب گنگا ندی میں کل درجنوں لاشیں برآمد کی گئی ہیں۔ بہار کے افسران کا خیال ہے کہ یہ اترپردیش سے بہہ کر آئی تھیں اور ندی میں ایک موڑ پر اکٹھی ہو گئیں۔ لیکن یہ کس کی لاشیں ہیں؟ اور انہیں دریا میں کس نے بہایا؟

وبا کو صرف ٹیکوں سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کورونا وائرس کی زد میں آکر مرنے والے غریبوں کی لاشیں ہو سکتی ہیں، جنہیں ہو سکتا ہے کہ آخری رسومات پر آنے والے خرچ سے بچنے کے لیے دریا میں بہا دیا گیا ہو۔ سچائی تفتیش کے بعد ہی سامنے آئے گی، اگر ایسے حالات میں کسی نے تفتیش کی تو۔
انڈیا نے 14 سال پہلے بیرون ملک سے امداد لینا بند کر دی تھی لیکن موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے یہ پالیسی فی الحال معطل کر دی گئی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک، مشرق وسطی، یورپ اور امریکہ سے امداد آنے کا سلسلہ جاری ہے لیکن جس ملک کی آبادی سوا ارب سے زیادہ ہو اس کی امداد کرنا بھی آسان نہیں۔ غیرملکی امداد سمندر میں تنکے کی ہی طرح ہے، اصل ضرورت ٹیکوں کی ہے کیونکہ وبا کو صرف ٹیکوں سے ہی روکا جا سکتا ہے۔
لیکن ٹیکوں کی سپلائی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ انڈیا ٹیکے بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، تین مہینے پہلے تک دنیا کی نگاہیں انڈیا پر ٹکی ہوئی تھیں اور اب وہ خود انتظار میں بیٹھا ہے۔
حکومت نے خود اپنے شہریوں کو ٹیکے لگانے پر توجہ دینے کے بجائے دوسرے ملکوں کو بھیجنا شروع کر دیے۔ اس وقت شاید ماہرین کا خیال تھا کہ صورتحال پر قابو پایا جا چکا ہے، لیکن جب حالات بدلے اور دوسری لہر آئی تو معلوم ہوا کہ یہ اتنا اچھا آئیڈیا نہیں تھا۔ ہوائی جہاز میں بیٹھتے ہی آپ نے یہ اعلان سنا ہوگا کہ اگر آکسیجن کا پریشر کم ہو جائے تو پہلے اپنا ماسک پہن کر سانس لیں پھر کسی اور کی مدد کریں۔

مرنے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہ بہت بنیادی بات ہے لیکن حکومتیں کب بنیادی باتوں پر دھیان دیتی ہیں۔
تو اب دیہی علاقوں میں کیا ہوگا؟ وہاں حفظان صحت کا نظام مہینوں میں تو کیا برسوں میں بھی نہیں سدھارا جا سکتا۔
اس کے لیے ایک جامع پالیسی درکار ہوگی، بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے زیادہ رقم مختص کرنا ہوگی، دیہی علاقوں میں ایسی سہولیات پیدا کرنا ہوں گی کہ ڈاکٹر وہاں پوسٹنگ کو سزا نہ سمجھیں۔ لیکن یہ سب تو جب ہوگا تب ہوگا، فی الحال ایسا بہت کچھ ہے جو آپ خود بھی کرسکتے ہیں۔
شروعات کے لیے بس اس غلط فہمی کو اپنے ذہن سے نکال دیجیے کہ کورونا وائرس صرف شہروں کی بیماری ہے۔ ماسک لگا کر رکھیے، تھوڑی تھوڑی دیر میں صابن سے ہاتھ دھوتے رہیے، بھیڑ بھاڑ والے علاقوں سے دور رہیے اور مساجد کا رخ کرتے وقت یہ یاد رکھیے کہ آپ کی مقامی مسجد کے امام سے کہیں زیادہ قابل لوگوں نے حرم شریف میں کس طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
آپ چاہیں تو یو ٹیوب پر لائیو نشریات دیکھ سکتے ہیں۔اور ہاں کورونا وائرس ہمارے اور آپکو پھیپڑوں میں فرق نہیں کرتا۔
رب راکھا اور عید مبارک۔

شیئر: