Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معصوم دہلوی کا کالم: خدا خیر کرے

انڈیا میں گزشتہ ایک ہفتے سے یومیہ ساڑھے تین لاکھ نئے کورونا کیسز آ رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
نہ ہسپتالوں میں جگہ ہے اور نہ شمشان گھاٹوں میں، جو بیمار ہیں وہ بس اوپر والے کے بھروسے ہیں اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ کسی بھی قیمت پر انفیکشن سے بچا جائے۔ بس جو بھی ہو، ہسپتال جانے کی نوبت نہ آئے۔
دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہوگا جہاں روزانہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ لوگ کسی خطرناک بیماری کی زد میں آ رہے ہوں اور ان سب کو مناسب علاج کی سہولت مہیا کرائی جا سکے۔ لیکن دنیا میں کوئی ایسا ملک بھی نہیں ہوگا جہاں مریضوں کی تعداد دنیا کے ریکارڈ توڑ رہی ہو اور ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت انتخابی ریلیوں میں مصروف ہو۔
ہم یہاں کیسے پہنچے یہ اب سب کو معلوم ہے، اس لیے اس پر وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن جب ملک کے سب سے بڑے ڈاکٹر ٹی وی پر بیٹھ کر آپ کو یہ گیان دیں کہ خون میں آکسیجن اگر کم ہو رہی ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر آکسیجن کی سطح نوے سے کم ہو جائے تو اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
سر ڈاکٹر سے تو ہم رجوع کر لیں گے لیکن کیا ڈاکٹر علاج فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ کیا وہ کہے گا کہ ہاں آ جاؤ جب تک ہسپتال میں جگہ ملے میں آکسیجن لگا دوں گا؟ کیا ہسپتالوں میں جگہ ہے؟
کیا وہاں کوئی فون اٹھا رہا ہے؟ کیا بلانے سے ایمبولینس آر ہی ہیں؟ آپ ملک کے سب سے بڑے ہسپتال کے ڈائریکٹر ہیں، آپ یہ خطرہ مول لے سکتے ہیں کہ جب تک بالکل ضروری نہ ہو ہسپتال نہ جائیں۔
ہم جیسوں کو تو نہ ہسپتالوں میں جگہ مل رہی ہے اور نہ گھر پر استعمال کے لیے آکسیجن کے سلنڈر۔ پچاس لیٹر آکسیجن کا سلنڈر پچاس ہزار میں بلیک ہو رہا ہے اور پھر بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
کیا آپ خبریں نہیں دیکھتے۔ آپ کو معلوم نہیں کہ ہسپتال میں بھی آکسیجن نہیں ہے اور وہاں مریض آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دم توڑ رہے ہیں؟
دلی جیسے شہر کے سب سے بڑے ہسپتال روزانہ ٹوئٹر پر یہ ایمرجنسی اپیل جاری کر رہے ہیں کہ اب ہمارے پاس کچھ ہی دیر کی آکسیجن باقی ہے، اس کے بعد مریضوں کا کیا ہوگا۔
اور کورونا وائرس سے نمٹنے میں آکسیجن سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس لیے جب اتر پردیش کے وزیراعلیٰ بار بار یہ کہتے ہیں کہ ریاست میں نہ آکسیجن کی کمی ہے اور نہ ہسپتالوں میں بستروں کی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ہوا میں آکسیجن کی بات کر رہے ہوں۔
یہ سچ ہے کہ پورے ملک کی ہوا میں تقریباً بیس فیصد آکسیجن ہے، اور یہ سوا ارب لوگوں کے لیے کافی ہے۔ لیکن جب پھیپڑے ساتھ نہ دے رہے ہوں، تو ہوا سے ڈائریکٹ آکسیجن لینا عام لوگوں کے لیے ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔

امریکہ اور یورپی یونین نے کورونا سے نمٹنے کے لیے انڈیا کو فوری امداد روانہ کی ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

اس وقت کسی کو نہیں معلوم کے انڈیا میں روزانہ کتنے لوگ کورونا وائرس سے مر رہے ہیں۔ لیکن قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں کے جو مناظر دکھائے جارہے ہیں انہیں دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔
بلا شبہہ ان میں سے بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جنہیں وقت پر مناسب علاج مل پاتا تو انہیں بچایا جا سکتا تھا اور اس غیر معمولی تباہی کے درمیان آئی پی ایل پورے زور شور سے جاری ہے۔
ہمارے قومی ہیرو اپنی الگ ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ جیسے انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ سٹیڈیم کے باہر کیا ہو رہا ہے۔ یہ لوگ بے پناہ پیسہ کماتے ہیں لیکن نہ معلوم کیوں اپنی جیب میں ہاتھ ڈالنے سے ذرا ہچکچاتے ہیں۔
آسٹریلوی بالر پیٹ کمنز نے امداد کے لیے پچاس ہزار ڈالر دیے ہیں، ہو سکتا ہے کہ جب آئی پی ایل میں ان کے ساتھ کھیلنے والے دوسرے کھلاڑیوں کو اس کی خبر ہو تو وہ بھی اپنی نیند سے جاگیں اور ان سے پوچھیں کہ انڈیا میں کچھ ہو رہا ہے کیا؟
یہ الگ بحث ہے کہ ایسے ماحول میں آئی پی ایل ہونا بھی چاہیے کہ نہیں لیکن جہاں تک ہم نے سنا ہے بڑے سٹار بھی انسان ہی ہوتے ہیں، انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے مداح کس مشکل دور سے گزر رہے ہیں؟
ایسی ہی ایک غیرمعمولی دنیا بالی وڈ کےستاروں کی بھی ہے۔ اگر آپ نے ان کی طرف سے کوئی پیغام یا مدد کی پیش کش دیکھی ہو، اظہار ہمدردی کے دو الفاظ سنے ہوں تو ہمیں بھی بتائیے گا۔
آگے کیا ہوگا، کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ماہرین یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ بہتر ہونے سے پہلے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اور یومیہ کیسز کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ گزشتہ برس ایک دن میں کیسز کی تعداد نے کبھی ایک لاکھ سے تجاوز نہیں کیا تھا۔

انڈیا کے ہسپتالوں کو آکسیجن کے بعد سٹریچرز کی کمی کا بھی سامنا رہا۔ فوٹو: اے ایف پی

جن کا وقت آگیا ہے انہیں کون بچا سکتا ہے۔ لیکن یہ انفیکشن کی سونامی ہے، اس میں بہت سے ایسے لوگ بھی نظروں سے اوجھل ہو رہے ہیں جن کی زندگیاں ابھی کچھ باقی تھیں۔
یہ سب کو معلوم تھا کہ ایک اور لہر آئے گی۔ باقی دنیا میں آئی تھی تو یہاں کیوں نہیں؟ لیکن حکومت سمیت زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے رہے کہ جب پہلی لہر کچھ زیادہ نہیں بگاڑ پائی تو اب کیا ہو جائے گا؟ اب تو ٹیکا بھی ہے اور بیماری کے بارے میں زیادہ معلومات بھی۔
یہ سوچ بس کچھ اس طرح کی ہے کہ آپ کسی خطرناک حادثے میں بچ جائیں اور سوچنے لگیں کہ اب آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اعتماد اچھا ہوتا ہے لیکن خطرے سے آنکھیں موند لینے میں کوئی سمجھداری نہیں ہے۔
انڈیا میں اس وقت جو ہو رہا ہے وہ دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں بھی اور ان سرحدوں کے پار بھی۔
اپنا خیال رکھیے گا۔

شیئر: