Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادیوں میں کمی کیوں ہو رہی ہے، جدہ میں پینل ڈسکشن

لوگ یہ سوال بھی کر رہے ہیں شادی، محبت کا ایک احساس ہے یا پھر ایک بوجھ۔(فوٹو: عرب نیوز)
تبدیل ہوتی ہوئی اقدار، بدلتی ہوئی ترجیحات اور روایتی پارٹنرشپ کے بڑھتے ہوئے متبادل جیسے موضوعات پر جدہ میں ایک پینل ڈسکشن ہوئی جس کا عنوان تھا ’شادیوں میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟‘۔
بحث کے دوران ’محبت‘، ’وعدے‘ اور ’شادی‘ جیسے بتدریج تبدیل ہوتے ہوئے تصوارت کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی گئی۔
عرب نیوز کے مطابق اس پینل بحث کا انتظام ’تعمق‘ نے کیا جو سچ پر مبنی مکالمے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ اس ایونٹ کا انعقاد جدہ میں کیا گیا۔ پینل میں ماہرینِ نفسیات، کمیونٹی لیڈر اور نوجوان شریک ہوئے۔ اس مکالمے کو تسنیم  الشنقیطی جو تعمق کی بانی ہیں، اور معتز الصفح نے ماڈریٹ کیا۔
معتز الصفح سعودی انجینیئر اور ایک کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ اس سیشن میں معاشرے میں پائی جانے والی تشویش، خوف اور پارٹرشپ کی نئی تعریفوں پر بات ہوئی۔
اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے تسنیم الشنقیطی نے بتایا کہ ’میں اس گفتگو کو صرف ماڈریٹ نہیں کر رہی تھی بلکہ میں نوجوان خواتین کی آواز کو آگے بڑھا رہی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک ایسی محفوظ جگہ تخلیق کرنا چاہتی ہیں جہاں کھلے ماحول میں بات ہو سکے اور اس پر غور و فکر کا موقع مل سکے۔‘

وژن 2030 کے تحت حکومت کی کوششوں کا بھی ذکر کیا گیا جن میں سعودی میرج فنڈ اور سکنی ہاؤسنگ پروگرام شامل ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

پینل میں شریک روزانا البناوی نے، جو قمہ اینڈ جدہ سی ایم کی بانی ہیں نے کہا کہ’ پینل میں معاشرتی، مذہبی اور نفسیاتی نقطہ ہائے نظر سے شادی کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بات چیت کی گئی۔ خود شناسی، اورآئیڈیلزم کے مقابلے میں موافقت اور محبت کے تصور میں تدریجی ارتقا پر توجہ دی گئی۔‘
معتز الصفح نے کہا’ میرے لیے اہم بات مردوں کے لیے ایک محفوظ جگہ بنانا ہے جہاں انھیں محض تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے اور وہ مخالفانہ رائے کے سامنے عاجز نہ ہوں بلکہ آسانی سے اپنی بات کر سکیں۔‘
انھوں نے کہا کہ’ یہ بات چیت بھائیوں کے درمیان گفتگو جیسی ہونی چاہیے نہ کہ رسمی مکالمہ۔‘
جدہ میں ہونے والی بحث میں سعودی نوجوانوں کے ذہنوں میں جو تصورات بار بار ابھر رہے ہیں ان کو گفتگو کا محور بنایا گیا۔ ان میں شادی میں ناکامی کا خوف، شادی کے لیے تیار نہ ہونا اور زیادہ توقعات کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہوجانا شامل ہیں۔

سعودی نسل میں شادی سے جڑے تصورات کے بارے میں آگاہی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’آج بہت سے لوگ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ آیا شادی، محبت کا ایک احساس ہے یا پھر ایک بوجھ۔‘
ڈاکٹر خالد سندی نے جو ریلیشن شپ اور شادی کے معاملات کے لیے سائیکوتھیراپِسٹ ہیں، اس موقع پر ذاتی چیلنجز کو پالیسی اور سماجی تبدیلی سے ملاتے ہوئے ایک گہرے اور وسیع قومی تناظر کو سامنے رکھ کر بات کی۔
انھوں نے عرب نیوز سے گفتگو میں زور دیا کہ سعودی عرب میں شادی کی اقدار میں روایت سے جدیدیت کی طرف بتدریج تبدیلی ہو رہی ہے۔ تاہم انھوں نے اسلام کے بنیادی اصولوں کو محفوظ رکھنے کی اہمیت کو خاص طور پر واضح کیا۔
انھوں نے وژن 2030 کے تحت حکومت کی کوششوں کا ذکر کیا جن میں سعودی میرج فنڈ اور سکنی ہاؤسنگ پروگرام شامل ہیں جن کا مقصد سعودی نوجوان کے لیے معاشی رکاوٹوں کو آسان بنانا ہے۔

پرانی جنریشن کو چاہیے کہ وہ دانائی اور ہمدردی کے ساتھ سعودی نوجوانوں کی رہنمائی کرے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پینل میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ’ محبت اور وعدے کے روایتی تصورات میں تبدیلی کو غیریقینی ذہنیت کے بجائے میچورٹی کہنا چاہیے۔‘
البناوی نے کہا کہ ’موجودہ سعودی نسل میں شادی سے جڑے تصورات کے بارے میں بہت آگاہی موجود ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بات چیت اور مکالمہ نوجوانوں کو ریلیشن شپ اور یقین و عدم یقین جیسی باتوں میں مدد دیتے ہیں۔ نوجوان نسل اپنی شادی کے لیے پرانے اور غیر ضروری اصولوں سے ہٹ رہی ہے جن میں مالی دباؤ یا معاشرے کی توقعات کا بوجھ تو ہوتا ہے لیکن یہ چیزیں حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
روزانا البناوی کا کہنا تھا ’ایک مشترک بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ وہی شادیاں بہتر ثابت ہوتی ہیں جو جلدی ہوں، جس کے لیے دونوں تیار ہوں اور جن کو خاندان کا تعاون حاصل ہو۔ دیر سے شادی کرنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ خوف بڑھ جاتا ہے۔

سعودی عرب میں شادی  کے تصور اور فیملی لائف میں مدد فراہم کی جاتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر خالد سندی نے بات کرتے ہوئے کہا ’شادی پر نقطۂ نظر میں تبدیلی کو پرابلم سمجھنے کے بجائے پرانی جنریشن کو چاہیے کہ وہ دانائی اور ہمدردی کے ساتھ سعودی نوجوانوں کی رہنمائی کرے۔‘
انھوں نے حکومتی انیشی ایٹیوز کے انتہائی اہم کردار کا خاص طور پر ذکر کیا جس کے تحت سعودی عرب میں شادی  کے تصور اور فیملی لائف میں مدد فراہم کی جاتی ہے اور جس کے تحت خاندان کو معاشرے کا بنیادی حصہ بنانے کے عہد کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
تعمق کے زیرِ انتظام اس پینل کے سیشن میں جذباتی ایمانداری پر بات کرتے ہوئے معتزالصفح نے کہا ’مردوں کو اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سن کر ’کہ میں کسی کی بیٹی کو ناکام نہیں کرنا چاہتا‘، ایک گہرا احساس منظرِ عام پر آتا ہے جس کے بارے میں بات ہی نہیں ہوتی۔‘
تسنیم الشنقیطی نے بھی ایسی جگہوں کے ہونے پر زور دیا جہاں کا ماحول کھلا ہوا اور جہاں کسی کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ’لوگوں سے شادی میں ناکامی کے خوف کے بارے میں سن کر ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ بہت سے لوگ ایسے مقامات کی تلاش میں ہیں جہاں انھیں جیسے وہ ہیں ویسا ہی سمجھا اور دیکھا جائے اور انھیں سُنا جائے۔ الشنقیطی نے پینل میں ہونے والی بحث کو کھلے ماحول کی طرف ایک قدم قرار دیا۔‘

 

شیئر: