Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہزادی ڈیانا کا انٹرویو لینے کے لیے رپورٹر کا دھوکا، بی بی سی پر تنقید

بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس انٹرویو کے لیے بشیر نے جتنے ایوارڈز جیتے تھے وہ سب واپس کر دیے جائیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جمعرات کو یہ خبر سامنے آئی کہ ایک آفیشل انکوائری میں یہ ثابت ہو گیا کہ برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) کے صحافی مارٹن بشیر نے 1995 میں لیڈی ڈیانا کو جعلی دستاویزات دکھا کر اور دھوکہ دہی سے انٹرویو دینے کے لیے قائل کیا تھا جو کہ بی بی سی کی پروڈیوسرز کے لیے طے گائیڈ لائنز کی صریحاً خلاف ورزی تھا۔
عرب نیوز کے مطابق انکوائری رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بشیر نے نہ صرف شہزادی ڈیانا بلکہ ان کے بھائی ایرل سپنسر سے بھی جھوٹ بولا تھا تاکہ ان کو انٹرویو کے لیے قائل کیا جاسکے۔
ایرل سپنسز کے مطابق یہ اس لیے کیا گیا تاکہ صحافی ان کا اعتماد حاصل کر سکے اور وہ ان کا تعارف اپنی بہن ڈیانا سے کرائیں۔
برطانوی سپریم کورٹ کے سابق جج لارڈ ڈائیسن کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بی بی سی نے بھی شفافیت اور دیانت داری کے اپنے اعلیٰ معیارات کی پاسداری نہیں کی اور بشیر نے بی بی سی کی گائیڈ لائنز کی ’سنگین خلاف ورزی‘ کی۔
خیال رہے لیڈی ڈیانا کے مذکورہ انٹرویو کو ’پینوراما انٹرویو‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جسے نومبر 1995 میں بی بی سی پر نشر کیا گیا تھا۔
1996 میں اس وقت کے بی بی سی کے سربراہ ٹونی ہال نے انٹرویو کے حوالے سے انوسٹی گیشن کی تھی۔ تاہم لارڈ ڈائسن نے مبینہ طور پر اس انکوائری پر سخت تنقید کی ہے اور اسے غلط اور غیر موثر قرار دے دیا ہے۔
تحقیقات کے نتائج سامنے آنے کے بعد مارٹن بشیر نے معافی مانگ لی اور کہا کہ ’جعلی بینک دستاویزات دیکھانا ایک بیوقوفانہ حرکت تھی ایسی حرکت جس پر مجھے بہت افسوس ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا لیڈی ڈیانا کی جانب سے انٹرویو دینے کے ذاتی فیصلے پر کوئی اثر نہیں تھا۔
بی بی سی کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیو نے بھی انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد ’مکمل اور غیر مشروط‘ معافی مانگ لی ہے۔  

بی بی سی ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیو نے بھی انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد ’مکمل اور غیر مشروط‘ معافی مانگ لی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ٹم ڈیو نے کہا ’ اگرچہ رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیانا کی بی بی سی کو انٹرویو دینے کے آئیڈیا میں دلچسپی تھی تاہم یہ واضح ہے کہ انٹرویو لینے کے لیے جو طریقہ اپنایا گیا وہ ناظرین کے توقعات سے کم تھا۔ ہمیں اس پر بہت زیادہ افسوس ہے۔ لارڈ ڈائیسن نے ناکامیوں کی واضح نشاندہی کی ہے۔‘
1995 میں پینوراما کے نام سے  لیے گئے مشہور انٹرویو نے مارٹن بشیر کو ایک سٹار بنا دیا تھا کیونکہ اسے دو کروڑ 30 لاکھ لوگوں نے دیکھا تھا اور ڈیانا نے اس انٹرویو میں اپنی زندگی کے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا تھا۔
اسی انٹرویو کے دوران ڈیانا نے مشہور جملہ کہا تھا کہ ’اس شادی میں ہم تینوں‘ جس میں ان کا اشارہ کمیلا پارکر کی طرف تھا۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس انٹرویو کے لیے بشیر نے جتنے ایوارڈز جیتے تھے وہ سب واپس کر دیے جائیں گے۔
 

شیئر: