Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 برطانیہ کا شاہی خاندان، کل سے آج تک

انگلستان، انگلینڈ، برطانیہ، یوکے یا پھر ولایت، جو بھی کہہ لیں یہ ملک ہے بڑے کمال کا، اس کے پاس کوہ نور بھی ہے اور لیڈی ڈیانا بھی رہیں، چونکہ آدھی دنیا پر قابض رہا اس لیے ہر جگہ اس کے اثرات موجود ہیں۔ ایسا ہی ایک کردار چند سال قبل مجھے بھی ملا۔
’جلد ہی یوکے کے شاہی خاندان کا حصہ بن جائوں گا‘ مُریدکے سے گزرتی بس میں یہ جملہ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے نوجوان نے بولا تھا، جس زبردستی کے انداز میں وہ علیک سلیک کے فوراً بعد بے تکلف ہو رہا تھا اس سے لگا کہ شاید وہ ایسا کر ہی لے، پھر بھی پوچھا، کیسے؟
وہ پرجوش اور مدلل لہجے میں بولا، آپ کو نہیں پتہ شاہی خاندان میں شادی کے لیے حسب نسب نہیں دیکھا جاتا بس آپ میں گَٹس ہونے چاہیے، سٹوڈنٹ ویزے پر اپلائی کیا ہے، بس ویزہ لگنے کی دیر ہے۔ اس سے قبل وہ کسی گوری کے بارے میں بتاتا رہا تھا جس کا تعلق شاہی خاندان سے ہے اور اس کی سوشل میڈیا فرینڈ ہے۔

برطانیہ میں شاہی خاندان تو اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے تاہم پارلیمانی سسٹم بھی بہت مضبوط ہے۔

جانے اس وقت کہاں ہے لیکن شاہی خاندان کا حصہ یقیناً نہیں کیونکہ ابھی تک ’رویل فیملی ٹری‘ میں اس کی تصویر نظر نہیں آئی۔
بہرحال برطانیہ کو زیادہ تر نوآبادیاتی دور یا پھر موجودہ شاہی خاندان تک محدود ہو کے دیکھا جاتا ہے حالانکہ یہ اس سے بہت قبل کی تاریخ رکھتا ہے اور اسی جنگ و جدل سے گزرتا رہا ہے جس سے بیشتر ممالک گزرے۔

برطانیہ کی تاریخ

 قرون وسطیٰ میں یہ ایک قسم کا ’برصغیر‘ ہی تھا جس پر رومن، ڈین، جرمن اور وائی کنگ سمیت کئی قبائل مسلسل حملہ آور ہوتے رہے، اس کا نام بریٹن قبائل کی وجہ سے پڑا جو آج بھی بڑی تعداد میں ویلز میں مقیم ہیں، اس پر مختلف اوقات میں مختلف قوموں نے حکومت کی تاہم اسے کچھ استحکام اس وقت ملا جب دسویں صدی میں الفریڈ نے اقتدار سنبھالا ان پر بھی وائی کنگ کی جانب سے حملے کیے گئے جن کا انہوں نے بہادری اور دانش مندی سے مقابلہ کیا اور ایک معاہدے کے تحت کچھ حصہ دیا بھی تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہاں جمہوری سوچ پنپنے لگی جو موجودہ وقت تک پہنچی جس کے مطابق شاہی خاندان تو اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے تاہم پارلیمانی سسٹم بھی بہت مضبوط ہے، جس کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے۔

ملکہ الزبتھ دوم

ان کو دوم اس لیے کہا جاتا ہے کہ سولہویں صدی میں بھی انگلستان کی الزبتھ نامی ملکہ گزری ہیں ان کو الزبتھ اول کہا جاتا ہے جبکہ موجودہ کو دوم۔

ملکہ الزبتھ دوم نے 1961 اور 1997 میں پاکستان کے دورے کیے۔ فوٹو: ٹوئٹر

اس وقت شاہی خاندان کی سربراہ ملکہ الزبتھ دوم ہیں جو کنگ جارج ششم کی بیٹی ہیں، وہ 21 اپریل 1926 کو پیدا ہوئیں، ان کو گھر پر ہی تعلیم دلوائی گئی، 1936 میں ان کے چچا ایڈورڈ نے حکمرانی چھوڑی تو الزبتھ کے والد حکمران بنے، 1952 میں ان کے والد کے انتقال کے بعد الزبتھ برطانیہ کی ملکہ اور دولت مشترکہ ممالک کی سربراہ کے طور پر سامنے آئیں اور آج تک اسی عہدے پر ہیں، انہوں نے 1947 میں پرنس فیلیپ سے شادی کی، ان کے چار بچوں میں چارلس، اینے، پرنس اینڈریو اور پرنس ایڈورڈ شامل ہیں۔
شاہی خاندان ملکہ الزبتھ کے قریبی رشتہ داروں پر مشمتل ہے۔
اس وقت ان کی عمر 93 سال ہے اور وہ طویل ترین حکمرانی کا اعزاز بھی رکھتی ہیں انہیں حکمران بنے سڑسٹھ سال ہو چکے ہیں۔

لیڈی ڈیانا

وہ قد کاٹھ، انداز اور حسن ہر لحاظ سے شہزادی تو تھیں لیکن تب تک گمنام رہیں، جب تک شہزادہ چارلس کی نظر میں نہیں آئیں۔ 29 جولائی 1981 کو شادی ہوئی، یہ دنیا کی سب سے یادگار شادی ہے جسے ’فیئری ٹیل میرج‘ اور’میرج آف دی سنچری‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اگست 1996 میں ڈیانا اور پرنس چارلس میں طلاق ہو گئی۔ فوٹو: ٹوئٹر

ایک سال بعد پرنس ولیم اور 1984 میں ہیری کی پیدائش کے بعد چارلس اور لیڈی ڈیانا کے تعلقات میں تنائو اس وقت پیدا ہونا شروع ہوا جب کمیلا پارکر نامی خاتون چارلس کے قریب ہوئیں اور ان کا رویہ لیڈی ڈیانا سے سرد ہوتا چلا گیا، اس دوران دونوں شہزادے بھی بڑے ہوتے رہے، ڈیانا نے کچھ سال سب کچھ برداشت کیا لیکن پھر فیصلہ کرنا ہی پڑا، یوں اگست 1996 میں طلاق ہو گئی اور اس سے اگلے سال ڈیانا فرانس میں ایک ٹریفک حادثے کی نذر ہو گئیں۔

پرنس ولیم، پرنس ہیری

چارلس اور ڈیانا کے یہ دونوں بیٹے پیدا ہوتے ہی سلیبریٹی تھے۔ میڈیا ان کی تصاویر چھاپتا رہتا۔ لیڈی ڈیانا کی وفات کے وقت وہ 13 اور 15 سال کے تھے۔ پرنس ولیم نے 29 اپریل 2011 کو کیتھرین میڈلٹن سے شادی کی جو ان کی کلاس فیلو رہی تھیں، اس شادی کو بہت اہمیت ملی، دنیا بھر کے میڈیا نے اسے براہ راست دکھایا۔ پرنس ولیم اور کیتھرین کے تین بچے ہیں۔

ملکہ الزبتھ دوم نے فوج میں بھی خدمات انجام دیں، وہ خاندان کی پہلی خاتون فوجی تھیں۔ فوٹو: ٹوئٹر

پرنس ہیری  ولیم سے دو سال چھوٹے ہیں، انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج کی ٹریننگ بھی حاصل کی، باقاعدہ فوجی کے طور پر کام بھی کیا تاہم 2015 میں الگ ہو گئے، 2017 میں ان کے امریکن اداکارہ میگھن مارکل کے ساتھ معاشقے کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں اور 2018 کے آغاز میں اعلان ہوا کہ وہ میگھن سے شادی کرنے جا رہے ہیں، یہ شادی 19 مئی 2018 کو ہوئی اور ان کا ایک بیٹا ہے۔

شاہی خاندان اور پاکستان

ملکہ برطانیہ نے پاکستان کا پہلا دورہ یکم فروری 1961 کو شوہر فیلپ کے ساتھ کیا، 16 روزہ دورے میں مزار قائد پر حاضری دی اور لاہور، پشاور، بنگال، کوئٹہ سمیت کئی قبائلی علاقوں کے دورے بھی کیے۔
سات اکتوبر1997 کو وہ دوسری مرتبہ پاکستان آئیں۔
انہیں 21 توپوں کی سلامی دی گئی، شوہر فیلپ اس وقت بھی ان کے ہمراہ تھے جبکہ برطانوی وزیر خارجہ رابن کک بھی ساتھ تھے۔
اس وقت نواز شریف وزیر اعظم تھے اور فاروق لغاری صدر، ملکہ نے اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس وقت انہیں نشان پاکستان کا اعزاز بھی دیا گیا۔
2006 میں برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے اپنی اہلیہ کمیلا پارکر کے ہمراہ پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا جو چھ روز پر مشتمل تھا، انہوں نے صدر پرویز مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملاقات کے علاوہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے دورے بھی کیے۔
اس سے قبل لیڈی ڈیانا نے 21 فروری 1996 کو پاکستان کا دورہ کیا تھا، وہ عمران خان کی دعوت پر تین روزہ دورے پر آئی تھیں، انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کی چندہ مہم میں بھی شرکت کی تھی۔

شہزادہ ولیم کی آمد

کچھ عرصہ سے خبریں گردش کر رہی تھیں کہ شہزادہ ولیم پاکستان کا دورہ کریں گے، چند روز پیشتر جوڑے کے سیکرٹری اطلاعات نے اس کی تصدیق کی، دورہ 14 سے 18 اکتوبر تک ہو گا۔

شاہی خاندان کے بارے میں چند دلچسپ معلومات

یہ سینتیس پشتوں اور 1209 سال سے اقتدار میں ہے۔
تمام ہی بادشاہ اور ملکائیں کنگ الفریڈ کی اولاد ہیں۔

 2006 میں برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے اپنی اہلیہ کمیلا پارکر کے ہمراہ پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا۔ فوٹو: ٹوئٹر

ملکہ اپنی دوستوں سے بھی ’یوور میجسٹی یا میم‘ کہلوانا پسند کرتی ہیں۔
خاندان کا کوئی فرد پچیس سال سے پہلے اور حکمران کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتا
شاہی خاندان امریکی صدر جمی کارٹر کو قطعی پسند نہیں کرتا کیونکہ انہوں نے پہلی ملاقات میں ملکہ الزبتھ کو چوم لیا تھا۔
ملکہ الزبتھ دوم نے فوج میں بھی خدمات انجام دیں، وہ خاندان کی پہلی خاتون فوجی تھیں۔
ملکہ الزبتھ کی بیٹی پرنسز اینے نے 1976 کے اولمپکس میں گھُڑسواری کے مقابلوں میں شرکت کی تھی۔

 

ملکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر عمر میں گہرے رنگوں کے کپڑے پہنیں تاکہ ہجوم میں نمایاں نظر آئیں۔
شاہی خاندان کے اصولوں میں یہ بھی شامل ہے کہ عام افراد انہیں چھو نہ سکیں لیکن اب کی زیادہ پابندی نہیں ہوتی۔
شاہی خاندان کے افراد کو تحفہ پیش کیا جائے تو وہ اسے ہر حال میں قبول کرتے ہیں چاہے کیسا ہی، یا کسی کی بھی طرف سے ہو۔
ملکہ سے پہلے کوئی کھانا کھانا شروع نہیں کر سکتا جیسے ہی وہ ختم کریں سب کو ہاتھ روکنا پڑتا ہے
ملکہ کو کسی بھی ملک میں جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی، گاڑی کے لیے نمبر پلیٹ یا ڈرائیونگ لائسنس کی بھی ضرورت نہیں۔
کسی دوسرے خاندان کا فرد شادی کی صورت میں شاہی خاندان کا حصہ تو بن سکتا ہے لیکن کبھی حکمران نہیں بن سکتا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: