Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک اور تصادم، گھوٹکی ٹرین حادثہ کیسے ہوا؟

’دونوں ٹرینوں کے درمیان فاصلہ اتنا کم تھا کہ بروقت سرسید ایکسپریس کے ڈرائیور کو اطلاع نہیں دی جا سکی‘ (فوٹو: آئی ایس پی آر)
پاکستان ریلوے کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ’گھوٹکی ٹرین حادثے کی اصل وجہ ملت ایکسپریس کی بوگیوں کا پٹری سے اترنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹری سے اتر کر ڈاؤن ٹریک پر جا گریں جو اسی وقت راولپنڈی سے آنے والی سرسید ایکسپریس سے ٹکرا گئیں جس سے تصادم کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔‘
وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے مطابق ’ٹرین حادثے میں اب تک 32 مسافروں کی اموات کی تصدیق ہوئی ہے اور 98 افراد زخمی ہوئے ہیں۔‘

 

 ’اطلاعات ہیں کہ حادثے کا شکار ٹرین میں ابھی بھی زخمی مسافر موجود ہیں۔‘ وزیر صحت سندھ نے گھوٹکی، خیرپور، سکھر اور لاڑکانہ کے تمام ہسپتالوں میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے۔
کراچی ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر طارق اسد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اپ ٹریک پر ملت ایکسپریس کے ڈی ریل ہونے کا حادثہ اتوار اور پیر کی درمیانہ رات ساڑھے تین پونے چار بجے کے قریب عین اسی وقت پیش آیا جب ڈاؤن ٹریک پر سرسید ایکسپریس آرہی تھی۔‘
 ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں ٹرینوں کے درمیان محض چند کلومیٹر کا فاصلہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ملت ایکسپریس کی بوگیوں کے پٹری سے اترنے کے ایک منٹ سے بھی کم وقفے میں سرسید ایکسپریس ان سے ٹکرا گئی۔‘
طارق اسد کا کہنا تھا کہ ’دونوں ٹرینوں کے درمیان فاصلہ اتنا کم تھا کہ بروقت سرسید ایکسپریس کے ڈرائیور کو اطلاع نہیں دی جا سکی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اگر تین سے چار منٹ کا بھی وقت میسر ہوتا تو ریلوے گارڈ سسٹم کے تحت سامنے سے آنے والی ٹرین کو روک لیا جانا تھا، لیکن یہاں دونوں واقعات بیک وقت ہوئے جس سے سنگین حادثہ رونما ہوا۔‘

حادثے کے نتیجے میں ٹرینوں کی روانی معطل ہے اور دیگر ٹرینوں کو قریبی ریلوے سٹیشنوں پر روک لیا گیا ہے (فوٹو: گھوٹکی پولیس)

ایک سوال کے جواب میں ڈپٹی ڈائریکٹر ریلوے طارق اسد نے بتایا کہ ’ملت ایکسپریس کی بوگیوں کے پٹری سے اترنے کی وجوہات کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں، ابھی اس حوالے سے کچھ بھی قیاس آرائی کرنا قبل از وقت ہوگا۔‘
 گھوٹکی حادثے پر وفاقی وزیر ریلوے محمد اعظم خان سواتی نے نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا اور 24 گھنٹے کے اندر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرنے کا کہا ہے۔
 ٹرین حادثہ ریتی اور ڈھرکی کے درمیان ریلوے سٹیشن ریتی کے قریب پیش آیا۔ روہڑی جنکشن سے ریلیف ٹرین جائے حادثہ کی طرف روانہ کی گئی جو حادثے کے چھ گھنٹے بعد جائے وقوعہ پر پہنچی۔
حادثے کے نتیجے میں ٹرینوں کی روانی معطل ہے اور دیگر ٹرینوں کو قریبی ریلوے سٹیشنوں پر روک لیا گیا ہے۔

ٹریک کی خستہ حالی کے باعث سندھ میں ریلوے کے متعدد حادثات رونما ہو چکے ہیں (فوٹو: گھوٹکی پولیس)

ترجمان ریلوے نے مزید بتایا کہ ’سرسید ٹرین کے باقی ریک کو مسافروں کے ساتھ صادق آباد ریلوے سٹیشن کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ ٹریک بحال ہوتے ہی ٹرینوں کو منزل مقصود کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔‘
ریلوے نے مسافروں کی سہولت کے لیے کراچی، سکھر، فیصل آباد اور راولپنڈی میں ہیلپ سینٹرز قائم کردیے ہیں، جبکہ زخمیوں کو فوری طبی امداد کے لیے تعلقہ ہسپتال روھڑی، پنوعاقل اور سول ہسپتال سکھر منتقل کیا گیاہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سندھ میں ریلوے ٹریک پنچاب اور خیبرپختونخوا کی نسبت خاصا خستہ حال ہے، یہی وجہ ہے کہ نان سٹاپ ٹرینوں کو بھی سندھ میں نسبتاً کم رفتار سے چلایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی سندھ میں ریلوے کے متعدد حادثات رونما ہو چکے ہیں جن کی بنیادی وجہ ریلوے ٹریک کی خستہ حالی ہے، تاہم اس حوالے سے کسی پروجیکٹ کو تاحال ترجیحی بنیادوں پر شروع نہیں کیا گیا۔

شیئر: