Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیخوپورہ: بس اور ٹرین کے تصادم میں 22 افراد ہلاک

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر شیخوپورہ کے قریب ٹرین اور کوسٹر کے درمیان تصادم ہوا ہے جس کے نتیجے میں حکام کے مطابق ایک سکھ خاندان کے 22 افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔
ریسکیو 1122 کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فاروق آباد جاتری روڑ پر واقع پھاٹک پر کوسٹر بس ٹرین کے ساتھ ٹکرا گئی۔
مسافر وین اور ٹرین میں تصادم: تصاویر
ضلعی انتظامیہ کے مطابق پشاور کی ایک سکھ فیملی ننکانہ صاحب آئی ہوئی تھی۔ ننکانہ صاحب سے واپس پشاور جاتے ہوئے سچا سودا گردوارہ کے قریب پھاٹک پر فیصل آباد سے لاہور کی طرف جانے والی نان سٹاپ ٹرین کے ساتھ ٹکرا گئی۔
شیخوپورہ کے ڈی پی او غازی صلاح الدین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ خاندان کل پشاور سے ننکانہ صاحب کسی بزرگ کی موت پر افسوس کے لیے آیا تھا اور آج یہ واپس پشاور جا رہے تھے۔
ڈی پی او غازی صلا الدین کے مطابق اس کوسٹر میں تقریباً 27 افراد سوار تھے جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’ان کی تین گاڑیاں تھیں، دو گاڑیاں خیروعافیت سے پھاٹک کراس کر گئی جو تیسری گاڑی تھی وہ شہر کے دوسرے پھاٹک کی طرف آگئی، یہاں پھاٹک بند تھا اور یہ اس چیز کی علامت تھی کہ ٹرین آ رہی ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ ڈرائیور نے تھوڑا جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھاٹک کو چھوڑ کر 25، تیس گز پیچھے ایک کچے ٹریک کے ذریعے گاڑی نکالنے کی کوشش کی، پیچھے سے ٹرین نزدیک تھی اور اس کی زد میں گاڑی آگئی۔‘

فاروق آباد جاتری روڑ پر واقع پھاٹک پر کوسٹر بس ٹرین کے ساتھ ٹکرا گئی (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

ڈی پی او شیخوپورہ کے مطابق کہ زخمی افراد کو ہسپتال پہنچایا گیا ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ سکھ برادری ننکانہ صاحب کے علاقے میں رہتی ہے۔
گذشتہ برس بھی پاکستان میں متعدد ٹرین حادثات ہوئے تھے۔ 2019  کی قومی اسبملی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں چھ جولائی تک ریلوے کے 74 حادثات ہوئے۔

’حادثے کے شکار افراد رشتہ دار تھے‘

حادثے کے شکار افراد کا تعلق پشاور شہر کے جوگن شاہ محلے سے ہے۔ 
اس محلے میں چھ سو سے زیادہ سکھ خاندان آباد ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے محلہ جوگن شاہ کے مقیم اور سکھ برادری کے نوجوان رہنما باباجی گرپال سنگھ نے کہا ہے کہ حادثے کے شکار افراد آپس میں رشتہ دار تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ایک مذہبی رہنما کی موت کے افسوس کے لیے یہ لوگ ننکانہ صاحب جا رہے تھے، ہمارا پشتون کلچر ہے جب فوتگی ہو جائے تو ہم سب دعا اور افسوس کے لیے لازمی جاتے ہیں، کورونا وائرس کی وجہ سے لوگ کم تعداد میں وقفے وقفے سے جا رہے تھے۔‘

شیئر: