Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملیے انسان نما روبوٹ ’گریس‘ سے جو ’مُوڈ کو خوشگوار بنا سکتی ہے‘

ڈیوڈ ہینسن کے مطابق ’گریس چہرے کے 48 پٹھوں کو حرکت دے سکتی ہے‘ (فوٹو: روئٹرز)
ہانگ کانگ کی ایک ٹیم انسان نما روبوٹ ’صوفیا‘ بنانے کے بعد ’گریس‘ نامی ایک نیا روبوٹ سامنے لانے کی تیاری کر رہی ہے جو کورونا سے متاثر ہونے والے بزرگ افراد اور آئسولیشن میں رہنے والوں کی مدد کرے گی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نرسوں کے نیلے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس گریس کے کندھوں تک بھورے بال ہیں اور اس کی شکل ایشین لوگوں جیسی ہے۔ اس کے سینے میں تھرمل کیمرہ ہے جو جسم کا درجہ حرارت چیک کرتا ہے۔
یہ روبوٹ خاتون مصنوعی ذہانت سے مریض کی تشخیص کرتی ہے اور انگریزی کے علاوہ مندارین اور کنٹونیز زبانیں بولتی ہے۔
ہانگ کانگ کی ورکشاپ ہینسن روبوٹکس میں اپنی ’بہن‘ صوفیا کے قریب کھڑی اس روبوٹ نے روئٹرز کو بتایا کہ ’میں لوگوں کے ساتھ سیر پر جا سکتی ہوں اور ان کے مُوڈ کو خوشگوار بنا سکتی ہوں۔ اس کے علاوہ میں گفتگو کے ذریعے تھراپی کر سکتی ہوں، بائیو ریڈنگز لے سکتی ہوں اور طبی عملے کی مدد کر سکتی ہوں۔‘
بانی ڈیوڈ ہینسن نے کہا کہ ’گریس کی طبی عملے سے ملتی جلتی شکل اور سماجی میل جول کا مقصد کورونا کی وبا سے نبرد آزما طبی عملے کی مدد کرنا ہے۔‘
’انسان جیسی شکل سے اعتماد پیدا ہوتا ہے اور قدرتی میل جول کا احساس ہوتا ہے۔ گریس چہرے کے 48 پٹھوں کو حرکت دے سکتی ہے اور اس کی ہیئت ایشیائی اور مغربی اینائم کریکٹر کی طرح ہے۔‘
ہینسن روبوٹکس اور سنگولیریٹی سٹوڈیو کے جوائنٹ وینچر کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ لیک کا کہنا ہے کہ ’ایویکننگ ہیلتھ نامی ادارہ اگست میں اس روبوٹ کا بِیٹا ورژن بڑی تعداد میں بنانا شروع کرے گا اور اس کو ہانگ کانگ، چین، کوریا اور جاپان میں اگلے برس لانچ کر دیا جائے گا۔‘
ہینسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اب روبوٹس بنانے کی لاگت ایک مہنگی کار کے برابر ہے لیکن جب ان کی تیاری ہزاروں میں شروع ہوگی اس میں کمی آ جائے گی۔‘

پروفیسر کِم مِن سن نے بتایا کہ ’کورونا وائرس نے انسان نما روبوٹس کی ضرورت کو اہم بنا دیا ہے‘ (فوٹو: روئٹرز)

یونیورسٹی آف ہوائی میں کمیونیکولوجی کے پروفیسر کِم مِن سن نے بتایا کہ ’کورونا وائرس نے انسان نما روبوٹس کی ضرورت کو اہم بنا دیا ہے۔‘
لاک ڈاؤن میں گھروں کے اندر رہ کر بہت سے لوگوں کے ذہن منفی خیالات کی وجہ متاثر ہوئے ہیں۔
پروفیسر کا کہنا تھا کہ ’اگر ان افراد کی روبوٹس کی مدد سے کی جا سکتی ہے تو اس سے معاشرے پر مثبت اثر پڑے گا۔‘

شیئر: