Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی شکایات، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی تجاویز کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے (فوٹو: پاکستانی قونصلیٹ جدہ)
سعودی عرب میں مقیم پاکستانی شہریوں کی جانب سے درپیش مشکلات اور سفارتی عملے کی بدسلوکی کی شکایات کی چھان بین کے لیے قائم اعلی سطح کی فیکٹ فائنڈنگ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو بھجوا دی ہے۔
اردو نیوز کو حاصل معلومات کے مطابق فیکٹ فائنڈگ کمیٹی نے ریاض میں سفارت خانے کے قونصلر سیکشن کے کچھ افسران کو قصور وار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش کی ہے، تاہم کمیٹی نے کارروائی شروع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وزیراعظم کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔
وزیراعظم آفس حکام کے مطابق کمیٹی نے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی شکایات کو درست قرار دیتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے کئی ایک تجاویز اور سفارشات مرتب کی ہیں۔ 
حکام نے بتایا ہے کہ کمیٹی نے سعودی عرب میں سابق سفیر راجہ اعجاز علی خان سمیت وزارت سمندر پار پاکستانیز کے دو افسران، نادرا اور پاسپورٹ کے متعلقہ حکام کو طلب کر کے ان سے شکایات سے متعلق سوالات کیے ہیں اور ان کا موقف لیا جو اس رپورٹ کا حصہ ہے۔
کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ کورونا کے دوران سفارت خانے میں آنے والے افراد کو سفارت خانے سے دور دھوپ میں کھڑا کیا گیا۔ اس حوالے سے سفارت خانے کے افسران نے موقف اپنایا ہے کہ کورونا ایس او پیز کے تحت ڈپلومیٹک ایریا میں اتنی بڑی تعداد میں افراد کو اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
سفارتی افسران کے موقف پر تحقیقاتی کمیٹی نے کہا ہے کہ سفارت خانہ اس حوالے سے متبادل اور بہتر انتظام کر سکتا تھا۔ 

کمیٹی نے صورتحال کی بہتری کے لیے تجاویز بھی رپورٹ کا حصہ بنائی ہیں (فوٹو: پاکستان قونصلیٹ جدہ)

کمیٹی نے قونصلر سیکشن میں خاتون کے ساتھ پیش آنے والے نارروا سلوک کا ذمہ دار عملے کے ارکان کو ٹھہراتے ہوئے کارروائی کی سفارش کی ہے۔
فیکٹ فائنڈگ کمیٹی کے ساتھ کام کرنے والے حکام کے مطابق سعودی عرب میں مقیم کم و بیش 1200 سے زائد پاکستانیوں نے کمیٹی کو اپنی شکایات اور تجاویز بھیجیں۔ ان کی سکروٹنی کرنے کے بعد دی گئی تجاویز کی روشنی میں سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔
ان شکایات میں زیادہ تر کا تعلق سفارتی عملے، پاسپورٹ، نادرا، امیگریشن اور سفارت خانے میں سہولیات سے متعلق تھا۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ سعودی عرب میں سفارت خانے کے عملے میں اضافہ کیا جائے جبکہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈز کے کاونٹر بھی بڑھائے جائیں۔ 
اس حوالے سے وزارت سمندر پار پاکستانیز کے ایک افسر، جنہیں وزیر اعظم کی ہدایت پر پاکستان واپس بلایا گیا ہے، نے بتایا کہ ’کمیٹی کی کارروائی اور رپورٹ اپنی جگہ لیکن گزشتہ دو سے تین سال میں سفارتی عملے پر بہت زیادہ بوجھ تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کورونا سے پہلے ایمنسٹی سکیم کے تحت سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر مقیم ہزاروں پاکستانیوں کی دستاویزات درست کی گئیں بلکہ مقامی حکام کے ساتھ مل کر ان کی ہر طرح کی قانونی معاونت کی گئی۔ سفارت خانے کے افسران دن بھر قونصلر سیکشن میں کام کرتے اور رات کو ایک ایک ہزار کلومیٹر سفر کرکے لیبر کیمپوں میں جا کر پاکستانی ورکرز کے مسائل حل کرتے۔‘

شکایات کے بعد وزیراعظم نے سعودی عرب سے پاکستانی سفارتی عملے کے کچھ ارکان کو واپس بلایا تھا (فوٹو: پاکستان قونصلیٹ)

ان کے مطابق ہزاروں ورکرز کو دو دو سو ریال کا خرچ بھی دیا گیا تاکہ کمپنیوں کی طرف سے بقایا جات کا مسئلہ حل ہونے تک وہ آسانی سے گزارہ کر سکیں۔
متعلقہ افسر نے کہا کہ ’ایک دن میں 1500 سے 2000 افراد کو ڈیل کرنا۔ ان کی دستاویزات دیکھنا اور ان کو درست کرنا ایک مشقت طلب کام ہے۔ ایسے میں اگر کسی نے کوئی سخت بات کہہ بھی دی یا غلطی کر دی تو اس کے خلاف اتنا سخت ایکشن نہیں لینا چاہیے کہ پورا سفارت خانہ ہی بدنام ہو جائے اور اس کی کارکردگی اور محنت ضائع ہو جائے۔‘
خیال رہے کہ سعودی عرب میں سفارتی عملے کے خلاف پاکستانیوں کی سیٹیزن پورٹل پر شکایات کے بعد وزیراعظم نے ریاض میں پاکستانی سفیر سمیت عملے کے کچھ ارکان کو واپس بلا کر تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ 
وزیراعظم معائینہ کمیشن کے چیئرمین احمد یار ہراج نے اس مقصد کے لیے سید ابو احمد عاکف کی سربراہی میں معائنہ کمیشن کے رکن وقار احمد، وزارت خارجہ کے سپیشل سیکرٹری ڈاکٹر خالد میمن، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت داخلہ ڈاکٹر فخر عالم اور وزارت سمندر پار پاکستانیز سے ڈی جی امیگریشن بیورو کاشف احمد نور پر مشتمل اعلیٰ سطح کی پانچ رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ 
کمیٹی نے ایک سوال نامے کے ذریعے سعودی عرب سے باالخصوص اور دیگر ممالک سے باالعموم مسائل کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ان کے حل کے لیے تجاویز مانگی تھیں۔ 
کمیٹی نے تقریباً ایک مہینے میں اپنی رپورٹ مکمل کرکے وزیر اعظم کو بھیجی ہے۔

شیئر: