Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیبر انڈیکس میں سعودی عرب کی عالمی درجہ بندی میں بہتری

مملکت نے گزشتہ سال کے مقابلہ میں اپنی پوزیشن 13 درجے بہتر کی ہے۔(فوٹوعرب نیوز)
کورونا وباکے دوران ملازمت کا تحفظ پریشانی کا ایک بڑا سبب رہاہے۔ لاک ڈاؤن جیسے اقدامات کاروباری آمدنی میں کمی کا باعث بنتے رہے۔
عرب نیو ز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق  کورونا کے باعث  بہت سی کمپنیاں اوقات کار کو کم کرنے یا ملازمین کی تعداد میں کمی پر مجبور ہوتی رہی ہیں۔
مضبوط ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر اور سوشل سیفٹی نیٹس والے ممالک میں نقصان کچھ کم  ہے جبکہ دوسرے ملکوں میں کورونا بحران نے لیبر مارکیٹ میں لچک کی سنگین کمی کو بے نقاب کردیا ہے۔

ڈیجیٹلائزیشن مملکت اورعلاقائی ہمسایہ ممالک کو چیلنج کرتی رہے گی۔ (فوٹو عرب نیوز)

2021 کےعالمی لیبرریزیلینس انڈیکس (جی ایل آر آئی) نے ان ممالک کے بارے میں حقائق جاری کئے ہیں جو لیبر مارکیٹ سے نمٹنے کے حوالے سے بہترین مقام پر ہیں یا جو ملک چیلنجوں کو مواقع میں بدل دیتے ہیں۔
اس انڈیکس میں شامل 145 ایسے ممالک اور معیشتوں کی درجہ بندی ان بنیادوں پر کی گئی ہے کہ ان کی لیبر مارکیٹ کتنی لچکدار ہے۔
اس مطالعہ نے سعودی عرب کی مجموعی درجہ بندی میں ڈرامائی انداز میں سامنے آنے والی بہتری کا انکشاف کیا ہے۔
وائٹ شیلڈ پارٹنرز کے سینئر منیجر ٹام فلن نےعرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جی ایل آرآئی پالیسی سازوں کے لئے اہم اوزار ہے جس کے ذریعے کووڈ19جیسے قلیل مدتی شاکس نیز تکنیکی رکاوٹوں جیسے طویل مدتی دباؤ کے حوالے سے لیبر مارکیٹ کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر کووڈ19 نےعالمی سطح پر لیبر مارکیٹس اور ملازمتوں کو تباہ کیا لیکن جی ایل آر آئی کی اعلیٰ کارکردگی والے ممالک مثلاً نیدرلینڈ میں بے روزگاری کی شرح اب 3 فیصد کے قریب ہے جو دوسروں کے مقابلے نسبتاًبہتر ہے۔
جی ایل آر آئی کے مطابق سوئٹزرلینڈ اب بھی ایک ایسا ملک ہے جس کی  لیبر مارکیٹ دنیا میں سب سے زیادہ مستحکم ہے۔ اس کے بعدجرمنی اور ہالینڈز کا نمبر آتا ہے۔
امسال تمام اقسام کے شاکس کے حوالے سے لچک کی پیمائش کے لئے ایک نیا فریم ورک استعمال کیا گیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک بھی پہلے 10ملکوں کی فہرست میں شامل نہیں رہے۔

کووڈ19 نےعالمی سطح پر لیبر مارکیٹس اور ملازمتوں کو تباہ کیا۔ (فوٹو عرب نیوز)

اس فریم ورک کے مطابق امریکہ 14 ویں اور برطانیہ 12 ویں نمبر پر ہے جبکہ2020 انڈیکس میں وہ بالترتیب تیسرے اور نویں نمبر پرتھے۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں انڈیکس نے انکشاف کیا ہے کہ مملکت سمیت متعدد ممالک نے اپنی لیبرمارکیٹ میں لچک کو بہتر بنانے میں پیشرفت کی۔
 گذشتہ پانچ  برسوں میں درجہ بندی میں اضافہ کیا  تاہم کورونا وباکے دوران بہت سے ملک ان کامیابیوں کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔
متحدہ عرب امارات 2020 میں 21 ویں نمبرپر تھا  جب کہ  رواں سال وہ 35 ویں نمبر  پر نیچے آ گیا اس کے باوجودیو اے ای اعلیٰ درجے کا خلیجی ملک ہے۔ اس کی نسبتاًاعلیٰ پوزیشن حکومتی کوششوں کی عکاس ہے۔
عمان 75 ویں نمبر پر ہے اور اس نے2016 سے لے کر اب تک اس فہرست میں اپنی پوزیشن 19 درجے بہتر بنائی ہے۔ وہ 2020 میں 53 ویں نمبر پر تھا اور پچھلے سال ہی 22 درجے نیچے چلا گیا۔
سعودی عرب جو رواں سال کی فہرست میں 62 ویں نمبر پر ہے اس رجحان کو روکنے میں کامیاب ہوگیا۔ 2016 کے بعد سے نہ صرف مملکت نے 27 درجےاضافہ کیا بلکہ اس نے وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کے باوجود گزشتہ سال کے مقابلہ میں اپنی پوزیشن 13 درجے بہتر کی ہے۔
فلن نے مملکت کی اس کامیابی کے بارے میں کہا کہ عرب دنیا کی رہنما معیشت ہونے اور معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے باعث اس ترقی کی بنیاد رکھی گئی۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے بہت سے ممالک میں لچک کے نمایاں فرق موجود ہیں۔ ان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کے چیلنجوں نیز ڈیجیٹل  ملازمتوں کے لئے اپنی لیبر مارکیٹ تیار کرنا شامل ہیں۔

خطے کے بہت سے ممالک میں لچک کے نمایاں فرق موجود ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)

وائٹ شیلڈ شراکت داروں کے شریک بانی اور شراکت دار فادی فرا نے عرب نیوز کو بتایاکہ جی ایل آر آئی مشرق وسطیٰ کے پالیسی سازوں کو پائدار ملازمتوں کی ترقی کے لئے ایک نقشہ فراہم کرتا ہے۔
یہ خطے کے لئے ایک اہم چیلنج ہے جو نسبتاًناپائدارلیبر مارکیٹس اور معیشتوں پر مبنی ہے۔
سعودی عرب کے معاملے میں جی ایل آر آئی نے ظاہر کیا ہے کہ پالیسی سطح پر بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
فادی فرا نے کہا  ہےکہ خاص طور پر ٹیلنٹ کو راغب کرنا، اس کی نشوونما کرنا اور کاروباری استحکام اور کریڈٹ تک رسائی کے ذریعے کاروبار کے مجموعی ماحول کو بہتر بنانا،سعودی عرب کو جدید چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور سٹارٹ اپس میں ترقی اور نجی شعبے میں ملازمتوں کے نئے ذرائع فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتاہے۔
فلن کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن اوربڑھتی ہوئی نوجوان آبادی مملکت اور اس کے علاقائی ہمسایہ ممالک کو چیلنج کرتی رہے گی کہ وہ مستقبل کی صنعتوں کی طرف زیادہ سے زیادہ اور بہتر معیار کی ملازمتیں فراہم کریں۔
فلن نے کہاکہ کووڈ 19 کے بحران سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ معاشی نمو کے لئے چند صنعتوں اور قدرتی وسائل پر انحصار کس طرح مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر خلیج میں لیبر منڈیوں کودھچکے کا خطرہ ہے۔
 نوجوانوں اور کم ہنر مند کارکنوں کو خاص طور پر گزند پہنچی ہےاس کے باوجود مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر سعودی عرب کی لیبر مارکیٹ میں لچک آنے میں واضح بہتری آئی ہے اور اس کے مزید امکانات ہیں۔
 

شیئر: