Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

داخلی ’خارجہ پالیسی‘: ماریہ میمن کا کالم

کئی ماہرین کی رائے کے مطابق سفارت کاری اور فارن پالیسی میں بات رسمی طریقے سے ٹالی جاتی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
 وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ سے خارجہ پالیسی پر خطاب کیا۔ اس خطاب کو زیادہ تر مبصرین جاندار اور موثر قرار دے رہے ہیں۔ اس میں ایک قومی جذبے اور جوش کی بازگشت بھی نمایاں رہی۔
اس کے ساتھ ہی عسکری قیادت کی طرف سے اعلیٰ سیاسی قیادت کو بریفنگ بھی دی گئی۔ یہ بریفنگ خبروں کے مطابق قدرے محتاط رہی۔
اس کے ساتھ ہی گزشتہ دنوں فیٹف سے پاکستان کے لیے حوصلہ شکن فیصلہ سامنے آیا۔ اس فیصلے اور افغانستان میں روز بگڑتی ہوئی صورتحال کے ساتھ امریکی حکمت عملی کو لے کر حکومتی وزرا بشمول وزیر خارجہ اور معاون خصوصی نیشنل سکیورٹی کی طرف سے اضطراب اور ناراضگی کا اظہار بھی ہوا۔ ان سب سے داخلی طور پر خارجہ پالیسی پر مضبوط اور کچھ حد تک جارح پوزیشن سامنے آئی ہے۔
سوال البتہ یہ ہے کہ کیا ہماری خارجہ پالیسی کا ہدف زیادہ داخلی سیاست اور آڈینس ہونی چاہیے؟ اس کے ساتھ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فارن پالیسی میں حتمی اور پوائنٹ آف نو ریٹرن والے بیانات کس حد تک کارآمد ہیں؟ اور آخر میں اگر ہمیں اس وقت لی گئی سخت پوزیشن کو بدلنا پڑا تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
سب سے پہلے اس حکومت کی خارجہ پالیسی پر اگر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو اس کو سرگرمی اور کارگردگی دونوں میں ہی نشیب و فراز سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کئی مہینوں تک خارجہ پالیسی فرنٹ پر خاموشی رہتی ہے اور پھر یک دم ایک جوش و خروش نظر آتا ہے۔ یہی تنوع ہمارے خارجہ پالیسی کے اہداف میں نظر آتا ہے۔
کبھی ہم ایک بلاک میں ہوتے ہیں اور دوسرے بلاک کا مکمل طور پر بائیکاٹ ہو جاتا ہے اور پھر ایک دن بائیکاٹ دوبارہ ہنی مون میں بدل جاتا ہے۔ شاید حکومتی نکتہ نظر کے مطابق یہ مہارت اور ہوشیاری ہو مگر یہ سمجھنا بھی خام خیالی ہو گی کہ باقی دنیا یا اس کے لیڈر ان نشیب و فراز سے لا علم ہیں۔ 
ہمارا دوسرا مسئلہ ہمارے بیانات کا ہے۔ کئی ماہرین کی رائے کے مطابق سفارت کاری اور فارن پالیسی میں بات رسمی طریقے سے ٹالی جاتی ہے۔ ملکوں کی ایک دوسرے سے توقعات ہوتی ہیں جن کو وہ اپنے اپنے مفادات کے مطابق طے کرتے ہیں۔

پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے شرکا کو عسکری حکام نے بریفنگ دی تھی (فوٹو: ٹوئٹر نیشنل اسمبلی)

اس میں یقینا بہت سے معاملات پس پردہ بھی طے ہوتے ہیں اور اکثر آن ریکارڈ بھی بات ہوتی ہے۔ اب بھی جن جن معاملات پر ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے کھل کر بیان دیے ان پر دوسرے ممالک نے اول تو موقف دیا نہیں اور اگر سوال ہوتا بھی ہے تو ان کی وزرات خارجہ کے ترجمان  بالکل محتاط اور نپی تلی گفتگو کرتے ہیں۔
داخلی طور پر تو وزیراعظم کے ڈائریکٹ اور بغیر لگی لپٹی رکھے دیے گئے بیانات کی پذیرائی ہو رہی ہے مگر بین الاقوامی طور پر کیا اسی کو اسی طرح مثبت طور پر لیا جا رہا ہے اور کیا اس سے پاکستان کے اثرو رسوخ میں بہتری آ رہی ہے؟ زیادہ تر مبصرین اس پر محتاط اور ڈپلومیٹک بیانات کا ہی مشورہ دیتے ہیں۔ 
ہماری داخلی خارجہ پالیسی کی جلد بازی اس موقعے پر زیادہ عیاں ہے۔ وزیراعظم کا برطانیہ کا دورہ فی الحال منسوخ ہو چکا ہے۔ امریکی صدر سے ان کی براہ راست بات نہ ہونے پر بھی تبصرے ہو رہے ہیں۔ جلد یا بدیر برطانیہ اور امریکہ دونوں طرف اعلی سطح کی ملاقاتیں اور دورے بھی ہوں گے۔ ان رابطوں کے نتیجے میں حتمی معاہدے یا انڈر سٹینڈگ بھی سامنے آئے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت دوسری طرف سے بھی لچک دکھائی جائے اور ہم بھی  اپنے موقف میں لچک کو اپنے مفاد میں سمجھیں۔

عسکری قیادت کی طرف سے پارلیمان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس وقت اگر یو ٹرن سامنے آیا تو اس کے داخلی طور پر اثرات ہوں گے جس کے بعد مزید پریشر بڑھے گا۔   
فارن پالیسی دیر پا، دھیمی اور یکسو توجہ کی متقاضی ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے کچھ مشیر اس کو فوری فتح ڈیکلیر کرنے اور داخلی طور پر سیاسی وزن بڑھانے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ شاید اس کے پیچھے یہ مقصد ہو کہ اندرونی طور پر معیشت یا گورننس میں مسائل کو بیرونی فرنٹ پر کارکردگی سے بیلنس کیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے اس ’داخلی خارجہ پالیسی کو اس کے  اصل مقاصد تک ہی محدود رکھا جائے۔
 

شیئر: