Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تجارتی بندش کے باوجود انڈین سامان کی سمگلنگ کیسے جاری ہے؟

کسٹم حکام کے مطابق بارڈرز پر بارڑ لگنے اور سکیورٹی سخت ہونے کی وجہ سے سمگلنگ کی بڑی حد تک روک تھام ہوئی ہے (فوٹو: روئٹرز)
گوکہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت بند ہے لیکن اس کے باوجود انڈین مصنوعات سمگل ہو کر پاکستان کی منڈیوں میں پہنچ رہی ہیں۔
گزشتہ ایک مہینے کے اندر کسٹم انٹیلیجنس نے دو مختلف کارروائیوں میں  پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے گردونواح سے انڈین مصنوعات کی بھاری کھیپ پکڑی ہے۔
اتوار چار جولائی کی شام لاہور میں داخل ہونے والے ایک بڑے ٹرک کی منزل بند روڈ پر واقع ایک گودام تھی۔ ٹرک میں ایک ڈرائیور اور دو ہیلپر تھے اور یہ سامان سے لدھا ہوا ٹرک فیصل آباد سے لا رہے تھے۔
بند روڈ پر سٹم انٹیلیجنس کے حکام پہلے ہی ان کی تاک میں تھے۔ جیسے ہی ٹرک گودام کےسامنے لگا ٹرک کو  کسٹم حکام نے تحویل میں لے کر  ڈرائیور اور دونوں ہیلپرز کو بھی گرفتار کر لیا۔
ڈائریکٹر کسٹم انٹیلیجنس اسد رضا جعفری نے اردو نیوز کو بتایا کہ مذکورہ ٹرک انڈین مصنوعات سے بھرا ہوا تھا۔
’اس میں کاسمیٹکس، شیمپو، ہئیر آئل اور پرفیومز سمیت اسی  طرح کی اشیا تھیں۔ اور ان کی کم از کم مالیت 32 کروڑ روپے لگائی جا سکتی ہے۔ اور یہ سارا سمگل شدہ تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ان میں اکثریت ایسی پراڈکٹس کی تھی جن کے استعمال کی میعاد ختم ہوچکی تھی۔ ان پر دوبارہ لیبلنگ بھی کی گئی۔ اب ہم اس کی چھان بین کر رہے ہیں کہ یہ کس نیٹ ورک کے ذریعے فیصل آباد اور پھر لاہور سامان پہنچا۔ کچھ کڑیاں ہمارے پاس ہیں جس کی وجہ سے یہ مخبری ہوئی اور ہم اس سامان تک پہنچ گئے۔ باقی تفصیلات ابھی میڈیا سے شئیر نہیں کی جا سکتیں۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت بند ہونے کی وجہ سے انڈین مصنوعات پاکستان کی منڈیوں میں نایاب ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ یہ ایک مہینے میں دوسری کارروائی ہے جس میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے گردونواح سے انڈین مصنوعات کی بھاری کھیپ پکڑی گئی۔
خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت بند ہونے کی وجہ سے انڈین مصنوعات پاکستان کی منڈیوں میں نایاب ہیں لیکن اس کے باوجود یہ مصنوعات سمگل کر کے پاکستان میں لائی جاتی ہیں۔
لاہور کی ہول سیل کی سب سے بڑی مارکیٹ شاہ عالم مارکیٹ کے ایک تاجر عرفان بٹ کہتے ہیں کہ ’کچھ انڈین مصنوعات ایسی ہیں جن کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ رہتی ہے جیسا کہ ہئیر آئل بہت پاپولر ہے۔ جو بھی لوگ یہ کام کرتے ہیں اگر وہ دبئی کے ذریعے درآمد کریں تو ان مصنوعات کی قیمتیں اتنی ہو جائیں کہ کوئی بھی خرید نہ سکے۔ جیسے دیگر اشیا کے ساتھ ہوا ہے۔ اس لیے یہ غیر قانونی طریقے سے منگواتے ہیں۔ اور اس میں افغانستان کا چینل استعمال ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ اب سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے سختی بہت ہے اس لیے یہ سامان بہت سست روی سے مارکیٹ میں پہنچتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی اشیا زائد المعیاد ہو جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی لوگ اس کو لیبل بدل کر مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔‘
آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ بعض افراد اتنا بڑا رسک لے کر کاروبار کرتے ہیں؟ اس سوال کےجواب میں عرفان بٹ کا کہنا تھا ’دو چیزیں ہو سکتی ہیں ایک تو کچھ لوگ شروع سے ہی ایک خاص طرح کا کام کرتے ہیں اور انہوں نے ایک مارکیٹ بنائی ہوئی ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ ان کے گاہک تک سامان پہنچتا رہے۔ دوسرا یہ ہے کہ سمگل شدہ سامان سستا ملتا ہے اور جلدی امیر ہونے کے چکر میں لوگ اس طرح کا رسک لیتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد کوئی اتنی زیادہ بھی نہیں۔‘

تاجروں کے مطابق کچھ انڈین مصنوعات بشمول ہئیر آئل مارکیٹ میں بہت مقبول  ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’مارکیٹ میں انڈین مصنوعات نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ بھی وہ ہیں کہ دبئی کے راستے باقاعدہ درآمد ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی اکبری منڈی  ہے وہاں مصالحہ جات اور کیمیکلز کچھ ایسے ہیں جو بنتے ہی انڈیا میں ہیں تو وہ مہنگے ضرور مل رہے ہیں لیکن غیر قانونی نہیں ہیں۔‘
کسٹم حکام کے مطابق بارڈرز پر بارڑ لگنے اور سکیورٹی سخت ہونے کی وجہ سے سمگلنگ کی بڑی حد تک روک تھام ہوئی ہے لیکن ابھی بھی انڈر انوائسنگ اور غلط لیبلنگ سے سامان افغانستان سے پاکستان لایا جاتاہے۔ لیکن اب یہ بھی اتنا آسان نہیں رہا۔
اسد رضا نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کسٹم انٹیلیجنس کا کام ہی یہی ہے کہ اگر کوئی مس گائیڈ کر کے سامان ملکی حدود میں لے آتا ہے تو اس کے بعد پھر ہمارا کام شروع ہوجاتا ہے۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔‘

شیئر: