Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افغان طالبان غالب آئے تو پاکستانی طالبان کو تقویت مل سکتی ہے‘

’افغانستان سے انخلا کے وقت امریکہ کو یقین ہے کہ فوری طور پر ’فال آف کابل‘ نہیں ہو رہا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان غالب آتے ہیں تو پاکستان میں بالخصوص قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کو تقویت مل سکتی ہے، ہم پاکستان میں طالبانائزیشن نہیں چاہتے اس لیے ہم اس سے غافل بھی نہیں ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے جمعے کو ہونے والے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکہ کو یقین ہے کہ فوری طور پر ’فال آف کابل‘ نہیں ہو رہا۔ 
انھوں نے کہا کہ ’افغان طالبان اب بہت تیز ہو چکے ہیں۔ ان کے ظاہری حلیے کو نہ دیکھا جائے۔ ان سے بات کریں تو وہ انگریزی اور اردو سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ماضی میں مار کھائی اور سیکھا ہے۔‘ 
کمیٹی کی چیئر پرسن شیری رحمان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں شاہ محمود قریشی اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور اس کے افغانستان اور پاکستان پر اثرات کے بارے میں بریفنگ دی۔
’امریکہ کا افغانستان میں مشن مکمل ہو گیا‘ 
وزیر خارجہ نے افغانستان سے انخلا کے بارے میں کمیٹی کو امریکہ کے اس مؤقف سے بھی آگاہ کیا جو امریکہ نے وقتاً فوقتاً پاکستانی قیادت کے سامنے رکھا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کہتا ہے کہ ہمارا افغانستان آنے کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ ہمارے اوپر حملہ ہوا تھا۔ ہم نے اس کا بدلہ لینا تھا۔ اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگا دیا۔ افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ اب ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے یہاں مزید رہنا امریکی مفاد میں نہیں ہے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’امریکہ کہتا ہے کہ ہم افغانستان میں جمہوریت قائم کرنے اور قومی تعمیر کے لیے نہیں آئے تھے۔ ہم نے طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے میں انخلا کا طے کیا تھا اور طالبان نے انخلا کے وقت ہمارے اوپر حملے نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے انھوں نبھایا ہے۔‘ 
اس پر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ سابق دہشت گرد افغانستان میں امریکہ کا دفاع کر رہے ہیں؟‘ وزیر خارجہ نے جواب دیا کہ ’یہ آپ کہہ سکتے ہیں میں وہاں تک نہیں جا سکتا۔‘ 

’امریکہ نے افغانستان میں استحکام کے حوالے سے کچھ یقین دہانیاں کرائی ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مؤقف تھا کہ انخلا کے ساتھ ساتھ سیاسی مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہے اور افغانستان 90 کی دہائی کی طرح خانہ جنگی میں نہ جائے۔ لیکن امریکہ نے اتنی تیزی سے انخلا کیا ہے کہ بگرام ایئر بیس کا کنٹرول سنبھالنے والے افغان حکام کے مطابق انھیں بھی پتہ نہین چلا کہ بیس کب خالی ہوا کیونکہ مقامی افراد کی موجودگی سے معلوم ہوا کہ امریکہ جا چکا ہے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں استحکام کے حوالے سے کچھ یقین دہانیاں کرائی ہیں جن میں سے ایک افغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی کو یقینی بنانا ہے، امریکہ افغانستان کی ایئر فورس کو مستحکم کرے گا، اس کے علاوہ بھی معاونت جاری رکھے گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’امریکہ کے ان اقدامات سے لگتا ہے کہ امریکہ کو یقین ہے کہ اتنی جلدی فال آف کابل نہیں ہو رہا۔‘
مستقبل میں دہشت گردی کا خطرہ کہاں سے؟ 
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’امریکی انخلا کی وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ دہشت گردی کے جس خطرے کو ختم کرنے کے لیے وہ افغانستان آئے تھے اسے ختم کر دیا گیا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ مستقبل میں مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے دہشت گردی کا خطرہ ہے جس کے لیے امریکہ نے تیاری کر رکھی ہے اور وہ فوری ردعمل دینے کے لیے تیار ہے۔‘
اس کے ساتھ ساتھ امریکہ مستقبل میں چین کی سٹریٹجک اہمیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کر رہا ہے۔ 

’امریکہ کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کر کے حملوں کا بدلا لے لیا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ کا ترجمان کون؟ 
شاہ محمود قریشی کی بریفنگ ختم ہوئی تو کمیٹی کی چیئرپرسن شیری رحمان نے ان کی بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’شاہ محمود آپ نے امریکہ کی اچھی ترجمانی کی ہے۔‘ شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ ’میں امریکہ کا ترجمان نہیں ہوں، میں پاکستان کا ترجمان ہوں۔ میں نے امریکہ کا نقطہ نظر کمیٹی کے سامنے رکھا ہے۔‘ 
’افغان حکومت میں دھڑے بندیاں ہیں‘
وزیر خارجہ نے افغانستان میں مفاہمت اور اس صورت حال میں پاکستان کی سفارتی کوششوں اور رابطوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حال میں ہونے والی انطالیہ ڈپلومیسی کانفرنس میں افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ ’ہمارے (افغانوں) اپنے اندر بہت سے مسائل ہیں۔ یعنی دھڑے بندیاں ہیں۔‘ 
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ہم ان دھڑے بندیوں کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ ہم اچھے ہمسائے کا کردار ادا کرتے ہوئے اچھا مشورہ دے سکتے ہیں۔‘ 
’طالبان اب پہلے جیسے نہیں رہے‘
اپنی گفتگو کے دوران وزیر خارجہ نے کہا کہ صدر اشرف غنی طالبان کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں لیکن طالبان کو ان پر اعتراضات ہیں۔
’یہ یاد رکھیے گا کہ طالبان ابہت تیز ہو چکے ہیں۔ وہ پہلے جیسے نہیں رہے۔ آپ ان کے کپڑوں اور پشاوری چپل پر نہ جائیں۔ وہ بہت ذہین لوگ ہیں۔ پاکستان آنے والے وفود سے میری ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہ آپ کی بات کو سمجھتے اور اس پر اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’آپ اردو میں بات کریں یا انگریزی طالبان کو سمجھ آتی ہے۔ انھوں نے ماضی میں مار کھائی ہے اور اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ بہت زیرک ہیں اور انھیں ہر چیز کا ادراک ہے۔‘ 
پاکستان کی حکمت عملی کیا ہے؟ 
اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایسا لائحہ عمل اپنانا چاہتے ہیں جس سے افغانستان میں امن آئے، اس کے لیے کوشش ہے کہ سیاسی مفاہمت ہو جائے۔ 

شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ’شاہ محمود قریشی نے امریکہ کی اچھی ترجمانی کی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’اگر خانہ جنگی ہوتی ہے تو پناہ گزینوں کا سیلاب آئے گا اور اس کے لیے ہم ہر کسی کو بنا ویزے کے آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مہاجرین کو کیمپوں تک محفوظ رکھنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔‘ 
اس موقع پر معید یوسف نے کہا کہ ’افغانستان کی صورت حال خراب ہے اور ہم اسے کنٹرول نہیں کر رہے۔ پاکستان میں سول ملٹری روابط کے مسائل ختم ہو چکے ہیں اس لیے فیصلے کر نےمیں آسانی ہے اور پاکستان اس دفعہ مختلف طریقے سے سوچ رہا ہے۔ ہم سٹریٹجک ڈیپتھ نہیں چاہ رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سیاسی مفاہمت ہو بھی گئی تو معاشی عدم استحکام سے حالات پھر خراب ہوسکتے ہیں۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کے معاشی مستقبل کے خدشات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کر رہا۔۔ اگر سیاسی مصالحت ہو بھی جاتی ہے تو معاشی مسائل سے خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے پاکستان واحد ملک ہے جس نے افغانستان کو اپنی راہداری استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ ہم ایسی انڈسٹری لگا رہے ہیں جہاں افغانستان کا خام مال استعمال ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہم معاہدہ چاہ رہے ہیں لیکن موجودہ افغان حکومت تیار نہیں۔‘ 

 وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایسا لائحہ عمل اپنانا چاہتے ہیں جس سے افغانستان میں امن آئے (فوٹو: اے ایف پی)

’انڈیا افغانستان میں امن نہیں چاہتا‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انڈیا افغان مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کر رہا ہے، وہ بظاہر افغانستان کی تعمیر نو کے نام پر پیسہ لگاتا ہے لیکن اندر خانے پاکستان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔
’بگرام ایئر بیس سے سینکڑوں انڈین نکلے ہیں جو وہاں کیا کر رہے تھے؟ وہ پاکستان کے بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب میں دہشتگردوں کی معاونت کرنے والے راء کے لوگ تھے۔‘ 
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ہم نے اس صورت حال سے امریکہ، یورپ اور باقی دنیا کو آگاہ کر رکھا ہے۔ ہم نے ٹرائیکا پلس، استنبول پراسیس، ماسکو فارمیٹ، سہہ فریقی فورموں اور دو طرفہ ملاقاتوں میں افغانستان میں مفاہمت اور اس میں درپیش ایک ایک مشکل پر اپنا ردعمل دیا ہے۔‘ 
’ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ انڈیا افغانستان میں بدامنی چاہتا ہے اس میں اس کا مفاد ہے کہ پاکستان اپنی مغربی سرحد پر الجھا رہے۔‘ 
’قومی سلامتی کمیٹی میں تقریریں ہوئیں‘
ایک موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’قومی سلامتی کمیٹی بلانے کا مقصد تھا کہ ملکی سیاسی قیادت کو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ افغانستان کی صورت حال پر اعتماد میں لے۔ بدقسمتی سے بند کمرہ اجلاس میں ایسے تقریریں ہوئیں جیسے میڈیا بیٹھا ہو اور سب ایسے بول رہے ہوں کہ جیسے کل ان کے نام سے سرخیاں چھپوانی ہوں۔‘

شیئر: