Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم قتل کیس:مقتولہ کی سہیلی نےٹوئٹر اکاؤنٹ کیوں ڈیلیٹ کر دیا؟

ملزم سے آلہ قتل بھی برآمد ہو چکا ہے اور پولیس نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش بھی کر رکھی ہے۔ (فائل فوٹو: اسلام آباد پولیس)
عید سے ایک دن قبل اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف سیون میں بہیمانہ طریقے سے قتل کی جانے والی نور مقدم کے اہل خانہ اور دوست ایک طرف دکھ سے نڈھال ہیں تو دوسری طرف احساس سے عاری چند سوشل میڈیا پوسٹس نے دکھ کی اس گھڑی کو ان کے لیے عذاب بنا دیا ہے۔
عائلہ حسین انصاری 13 سال سے نور مقدم کی دوست ہیں اور ایسے وقت میں جب خاندان کے افراد صدمے کے باعث میڈیا سے بات نہیں کر رہے عائلہ حسین انصاری ہی ان کی ترجمانی کرتے ہوئے مقتولہ کے لیے انصاف مانگ رہی ہیں۔
تاہم عائلہ نے نور مقدم کے قتل کے چند گھنٹوں بعد ہی اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں پہلے ہی دکھ سے نڈھال تھی، نور میری بچپن کی دوست تھیں، میری بہن تھیں، ان کے اس طرح اچانک قتل نے مجھے ہوش سے بیگانہ کر دیا تھا۔‘
 ’پھر ان کے حوالے سے مصالحے دار اور ظالمانہ تبصرے مجھے پاگل کر دیتے، اس لیے میں نے ٹوئٹر اکاؤنٹ ہی ڈیلیٹ کردیا ہے۔‘
یاد رہے کہ منگل کی رات پاکستان کے سابق سفیر شوکت علی مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کو اسلام آباد میں تیز دھار آلےسے قتل کردیا گیا تھا۔ پولیس نے قتل کے الزام میں معروف بزنس مین ذاکر جعفر کے بیٹے ظاہر جعفر کو گرفتار کرلیا اور عدالت سے دو روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کیا گیا جو پیر کو ختم ہو رہا ہے۔
ملزم سے آلہ قتل بھی برآمد ہو چکا ہے اور اسلام آباد پولیس نے وزارت داخلہ کو دہری شہریت رکھنے والے ملزم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش بھی کر رکھی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے عائلہ نے بتایا کہ ’وہ اب انسٹا گرام پر خاندان کی جانب سے انصاف کی اپیل کر رہی ہیں تاہم انہیں وہاں بھی ناصرف افسوسناک تبصرے دیکھنے کو مل رہے ہیں بلکہ ڈائریکٹ میسج کرکے لوگ مقتولہ کے حوالے سے عجیب و غریب سوالات کر کے ذہنی اذیت پہنچا رہے ہیں۔

عائلہ انصاری کا کہنا تھا کہ ’نور کی جدائی ہی کم صدمہ نہیں کہ بے حس پوسٹوں نے دل توڑ کر رکھ دیا۔‘ (فائل فوٹو: اسلام آباد پولیس)

’سوشل میڈیا کی وجہ سے ہی ہمیں انصاف کی امید نظر آئی ہے اور ملزم ملک سے فرار نہیں ہو پایا، اس لیے ہم مدد کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کے شکر گزار ہیں تاہم ہمیں چند صارفین سے یہ شکایت ہے کہ ان کے سوالوں کا نشانہ مقتولہ نور ہی کیوں ہیں؟‘
 انہوں نے کہا کہ ’قاتل سے سوال کیوں نہیں ہو رہا، لوگ تصدیق کے بغیر طرح طرح کی کہانیاں گھڑ گھڑ کر لگا رہے ہیں جس سے ظلم کا نشانہ بننے والی نور کے عزیزوں اور دوستوں کو بہت اذیت پہنچ رہی ہے۔‘
عائلہ کے مطابق ’سوال تو قاتل سے اور اس کے دوستوں سے ہونا چاہیے کہ انہوں نے کیوں اس طرح ایک معصوم کی جان لی مگر یہ پوچھا جا رہا ہے کہ وہ وہاں گئی کیوں تھیں اور والدین کی کیا تربیت تھی۔‘
’کیا قاتل کے والدین سے تربیت کا سوال نہیں ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے رویے کو جانتے ہوئے بھی اسے کیوں کاروبار اور گھر دے رکھا تھا جہاں گارڈز بھی تھے مگر وہ اس بہیمانہ قتل کو نہیں روک پائے؟‘

عائلہ نے نور مقدم کے قتل کے چند گھنٹوں بعد ہی اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا۔ (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

عائلہ انصاری کا کہنا ہے کہ ’مقتولہ نور کے دوست اب سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے رابطے کرکے ان کی ٹویٹس اور پوسٹس کو ڈیلیٹ کرنے کا کہہ رہے ہیں جو جھوٹ اور مقتولہ پر الزامات پر مبنی ہیں، تاہم اس پر پوسٹ لگانے والے کئی افراد ہماری بھی بے عزتی کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نور کی جدائی ہی کم صدمہ نہیں کہ بے حس پوسٹوں نے دل توڑ کر رکھ دیا۔‘
عائلہ حسین انصاری کا کہنا ہے کہ ’پتا نہیں کیوں ہم بطور معاشرہ اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمیں کسی کے صدمے سے مزہ آ رہا ہے۔
’دوسروں کے لیے شاید یہ فلم جیسا ہے مگر ہماری تو یہ اصل زندگی ہے جو ہم پر گزر رہی ہے خدارا کچھ تو احساس کریں۔‘

متاثرین کو ہی سوشل میڈیا پر مورد الزام کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟

پاکستان میں انٹرنیٹ حقوق پر کام کرنے والی سماجی کارکن نگہت داد کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا ہمارے معاشرے کا ہی عکاس ہے ۔ سوشل میڈیا پر بہتری تب ہی آئے گی جب معاشرے میں اچھی روایات پروان چڑھیں گی۔‘

عائلہ انصاری نے بتایا کہ ’وہ اب انسٹا گرام پر مقتولہ کے خاندان کی جانب سے انصاف کی اپیل کر رہی ہیں۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

 ’گذشتہ چند برسوں سے معاشرہ قدامت پرستی کی طرف جا رہا ہے۔ ہم نے قندیل بلوچ کے کیس میں بھی دیکھا کہ لوگ مقتولہ اور اس کے خاندان کو ہی قصور وار ٹھہرا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’توجہ قاتل سے ہٹا کر مقتولہ پر رکھی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہی رجحان ہورہا ہے۔ کون سی بات آن لائن سپیس پر ہونی چاہیے کون سی نہیں اس پر آگاہی کی ضرورت ہے۔‘
تاہم نگہت داد کے مطابق ’سوشل میڈیا پر گالی دینا اور تکلیف پہنچانا نہ ہو تو بحث مباحثے میں کوئی حرج نہیں۔ گفتگو کریں گے تو برداشت بڑھے گی مگر ہم پروقار طریقے سے اختلاف نہیں کر پاتے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میڈیا اور پڑھے لکھے طبقے کا کام ہے کہ آگاہی کو فروغ دیں۔ یہ حکومت یا ریگولیٹر پر ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی نا ہی سنسرشپ کا رجحان کچھ فائدہ دے گا۔‘
نگہت داد کے مطابق ’آگاہی کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر بلاتصدیق بات یا خبر نہ پھیلائی جائے مگر پہلے خبر دینے کا جنون ایسا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ اور چند صحافی بھی بلاتصدیق بات آگے بڑھا دیتے ہیں جو انتہائی غلط ہے۔‘

’متاثرہ خاندان چاہے تو اس کے پاس قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع کرنے کا آپشن موجود ہے۔‘ (فائل فوٹو: اسلام آباد پولیس)

 ان کا کہنا تھا کہ ’متاثرہ شخص کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کا رجحان ختم کرنے کی ذمہ داری رہنماؤں کی ہوتی ہے مگر جب اعلٰی پولیس افسران اور وزیراعظم خود اپنے بیانات سے ایسا کریں گے تو لوگ کیا سبق سیکھیں گے؟‘

سوشل میڈیا کو گھر کا ڈرائنگ روم سمجھیں

سوشل میڈیا ماہر اور امریکہ کی ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی میں کمیونیکیشن کے پروفیسر ڈاکٹر رؤف عارف کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں سوشل میڈیا کی طاقت اور اس کے مثبت استعمال کے حوالے سے ابھی بھی آگاہی کی کمی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن کے اثرات کا انہیں اندازہ نہیں ہوتا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’بعض لوگ عام زندگی میں خاصے مناسب معلوم ہوتے ہیں مگر سوشل میڈیا پر ان کی پوسٹس اور گفتگو کافی قابل اعتراض ہوتی ہیں۔‘
ڈاکٹر رؤف عارف کے مطابق ’سوشل میڈیا صارفین کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ پلیٹ فارم آپ کے گھر کے ڈرائنگ روم جیسا ہے جہاں آپ کے والدین یا بڑے بھی بیٹھے ہیں، بچے بھی ہیں اور تعلق دار بھی۔‘

پولیس نے عدالت سے ملزم ظاہر جعفر کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا ہے۔ (فائل فوٹو: اسلام آباد پولیس)

’کیا ایسے ماحول میں آپ کوئی غیر مناسب بات کر سکتے ہیں؟ تو بس پھر سوشل میڈیا پر اسی طرح دلائل سے مناسب بات کریں جیسی آپ ڈرائنگ روم میں کر سکتے ہیں وہاں بھی خیال رکھیں کہ آپ کی بات سے کسی پر کوئی برا اثر تو نہیں پڑے گا؟ خود آپ کو تو بعد میں شرمندگی نہیں ہو گی وغیرہ۔

قانون سے مدد کب لی جائے؟

سوشل میڈیا پر تکلیف دہ مواد کے حوالے سے اگر متاثرہ خاندان حکومت یا قانون کی مدد لینا چاہے تو اس حوالے سے اس کے پاس قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع کرنے کا آپشن موجود ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی شخص کو سوشل میڈیا پر کسی مواد کے حوالے سے شکایت ہے تو سب سے پہلے تو وہ اسی فورم سے رجوع کر سکتے ہیں جیسے ٹوئٹر یا فیس بک انتظامیہ کو رپورٹ کرنا وغیرہ شامل ہے تاکہ ایسا مواد بلاک ہو جائے۔‘
’اس کے علاوہ اگر وہ چاہیں تو پی ٹی اے کو بھی شکایت کر سکتے ہیں، ہمارا ٹول فری نمبر بھی ہے اور پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر لنک بھی ہے جس پر شکایت درج کی جا سکتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس کے بعد اگر کوئی آگے کی بات ہے، اگر کوئی مجرمانہ مواد ہے جیسے نفرت پر مبنی مواد یا دھمکی یا فراڈ وغیرہ تو جس پر قانونی کارروائی درکار ہے تو ’پیکا‘ قانون کے تحت ایف آئی اے کو بھی شکایت درج کروائی جا سکتی ہے جہاں سائبر کرائم ونگ اس پر کارروائی عمل میں لاتا ہے۔‘

شیئر: