Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیف جسٹس نور مقدم کیس کا نوٹس لیں: سابق پاکستانی سفرا

پاکستان کے سابق سفیروں کی ایسوسی ایشن نے نور مقدم کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ملزم کو مثالی سزا دی جائے۔
سابق سفیروں کی ایسوسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس اس کیس کا نوٹس لیں اور انصاف کو یقینی بنائیں۔
سفیروں کی ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے تاکہ وہ ملک سے جانے کے لیے اپنے خاندان کا اثر رسوخ استعمال نہ کرے۔
اسلام آباد پولیس نے قرار دیا ہے کہ نور مقدم قتل کیس میں گرفتار ملزم واردات کرتے وقت نہ تو نشے میں تھا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔
پولیس نے مقتولہ نور مقدم کے والدین اور قاتل کے والد کے بیانات بھی قلم بند کرلیے ہیں اور پولیس کو قاتل ظاہر جعفر کے ذہنی مریض ہونے کے ثبوت نہیں ملے۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن اسلام آباد عطا الرحمن نے نور مقدم قتل کیس کے حوالے سے جمعرات کے روز پریس کانفرنس میں جہاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلنے والی کچھ خبروں کو غلط قرار دیا ساتھ ہی مقتولہ کے خاندان کو یقین دلایا کہ پولیس ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ  ’جب ملزم کو گرفتار کیا اس وقت وہ نشے میں نہیں بلکہ ہوش و حواس میں تھا۔ گرفتار ملزم پر ماضی میں کسی کیس کی تفصیل ہمارے پاس نہیں ہے۔ ملزم بحالی سینٹر میں رہا یا نہیں اس سے ہمیں سروکار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملزم کے گھر سے پستول برآمد ہوا جس میں ایک گولی پھنسی ہوئی تھی۔ اسلام آباد پولیس کے افسر کے مطابق تفتیش کر رہے ہیں کہ مقتولہ کتنے عرصے سے یہاں تھیں۔ ملزم کے ساتھ گھر کے ملازموں کو بھی شامل تفتیش کیا ہے۔ ملزم اور لڑکی کے درمیان جھگڑا ہوا یا نہیں اس کا تعین تفتیش سے ہی ہو سکے گا۔
ایس ایس پی عطاالرحمن کے مطابق قتل کی اطلاع ایک علاقہ مکین نے دی جس کے فورا بعد پولیس موقع پر پہنچی اور فارنزک ٹیم نے شواہد جمع کیے۔ معاملے کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن کے مطابق سوشل میڈیا پر کچھ غلط چیزیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ملزم گرفتار ہے اور متاثرہ فیملی سے آئی جی نے ملاقات کی ہے، ہم ہر صورت میں متاثرہ فیملی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
آئی جی اسلام آباد نے کیس کے لیے ایک سپیشل ٹیم بنائی ہے۔ ابتدائی مقدمہ یہی ہے کہ نور مقدم دو دن سے گھر پر نہیں تھیں۔
پولیس نے ملزم ظاہر جعفر کا دو روزہ ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق ملزم سے مزید تفتیش کے بعد ہی قتل کے محرکات سامنے آ سکیں گے۔ فی الحال پولیس پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کر رہی ہے۔

نماز جنازہ میں سیکریٹری خارجہ سہیل محمود سمیت وزارت خارجہ کے حکام، سابق سفیروں اور مقتولہ کے قریبی عزیزوں نے شرکت کی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

نور مقدم اسلام آباد میں سپرد خاک

سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کی نماز جنازہ اسلام آباد کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نیول اینکریج میں ادا کرنے کے بعد مقتولہ کو سوسائٹی کے مرکزی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
نماز جنازہ میں سیکریٹری خارجہ سہیل محمود سمیت وزارت خارجہ کے حکام، سابق سفیروں اور مقتولہ کے قریبی عزیزوں نے شرکت کی۔
نور مقدم کو 20 جولائی کو گلا کاٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ جس کے بعد پولیس نے قتل کے الزام میں ظاہر جعفر نامی شخص کو جائے وقوعہ سے گرفتار کیا۔
نماز جنازہ سے پہلے ہی مقتولہ نور مقدم کے والد اور سابق سفیر شوکت مقدم جامع مسجد کے احاطے میں پہنچے تو وہ غم سے نڈھال دکھائی دے رہے تھے۔
نماز جنازہ میں شرکت کے لیے آئے افراد باری باری ان سے گلے ملتے، تعزیت کرتے اور وہ جواباً رسمی کلمات بمشکل ادا کر رہے تھے۔ ان کے کندھے جھکے ہوئے، آنکھیں نم اور پتھرائی ہوئی تھیں۔

نور مقدم کو 20 جولائی کو گلا کاٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ (فوٹو: اظہر محمد خان)

نماز جنازہ کے بعد مسجد کے باہر بھی تعزیت کرنے والے جمع ہوتے اور انھیں دلاسہ دیتے رہے۔ اس دوران اردو نیوز نے شوکت مقدم سے اس قتل کے بارے میں بات کرنا چاہی لیکن وہ کچھ زیادہ نہ بول سکے۔ صرف اتنا کہا کہ ’جس بہیمانہ طریقے سے یہ واردات ہوئی ہے اس کے بعد کہنے سننے کو کچھ بچا نہیں ہے۔ امید ہے پولیس اچھی تفتیش کرکے ملزم کو سزا دلوائے گی۔
تعزیت کے لیے آنے والے افراد جہاں شوکت مقدم اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر رہے تھے وہیں ان میں سے اکثر کو مقتولہ کی تعریف کرتے سنائی دیے۔
اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ نور مقدم اچھی بچی تھی۔ نہ جانے کیا ہوگیا کہ اس کے خاندان کو اس امتحان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
نماز جنازہ میں شریک افراد میں سے کچھ میڈیا کو وہاں دیکھ کر حیرانی کا اظہار رہے تھے کہ میڈیا اس قتل کو اتنی زیادہ کوریج کیوں دے رہا ہے جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ ملزم اور مقتولہ دونوں کا خاندانی پس منظر اور پھر لڑکی کا گلہ کاٹنے کا واقعہ نہ صرف میڈیا بلکہ عام آدمی کی توجہ کا مرکز بھی بن چکا ہے۔

شیئر: