Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دور حاضر کی حقیقت،’’غربت ایجاد کی ماں ہے‘‘

تسنیم امجد۔ ریا ض
ٹرانسپورٹ کو ملکی و غیر ملکی اور انفرادی سطح پر بے انتہاء اہمیت حاصل ہے ۔معاشرتی و ملکی معیشت کی ترقی کا انحصار اسی پر ہے۔ عوام کے ٹیلنٹ کو سلام ہے جو نا مواقف حالات میں جینے کی راہیں کس حوصلہ مندی سے نکال لیتے ہیں۔دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر کے دو رخ محسوس ہو رہے ہیں،ایک قانون شکنی اور دوسرا مجبوری،خصوصاًمعاشی مجبوری۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام بیچاروں کو اوورلوڈنگ کی عادت ہو چکی ہے۔کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے کہ:
کوئی نہیں کہ جو احساس کی صدا سن لے
اسی لئے تو ہر انساں کے لب پہ ہے یہ دعا
جس انسان کو دو وقت کی روٹی کی فکر ہو، اسے کیا خبر قانون کی ،اسے تو اوورلوڈنگ کی عادت ہو چکی ہوتی ہے۔استطاعت سے بڑھ کر سفید پوشی کا بھرم رکھنا آسان نہیں۔اپنے ساتھ ساتھ حضرت انسان نے مشینوں سے بھی ان کی استطاعت سے زیادہ کام لینا شروع کر دیا ہے جس کے باعث انہیں اکثر ورکشاپ میں بھیجنا پڑتا ہے ۔اس طرح اوورلوڈنگ سے کی گئی بچت کی وہاں کھپت ہو جاتی ہے۔
ہمارے آئین میں قانون کی عملداری حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے اس نے وعدہ بھی کر رکھا ہے لیکن فرق اتنا سا ہے کہ اس نے وعدہ وفا نہیں کیا۔اگر بنظرغائر دیکھا جائے تو ہمارے ہاںقانون کے بعض ایسے رکھوالے بھی موجود ہیں جوقانون سے کھیلتے  ہیں ۔سچ یہ ہے کہ قناعت کا فقدان ہے اور یہ سلسلہ حد سے بڑھ چکا ہے ورنہ اس قد ر آپا دھاپی نہ ہوتی۔ ہما را ماضی صبر و قناعت کی دولت سے مالا مال تھا ، شاید ا سی لئے رحمتیں بھی بے حساب تھیں۔برکت ایسی کہ تھوڑا بھی بہت ہوتا تھا ،مسابقتی دوڑ نہیں تھی ۔آج ایسا نہیں رہا۔ مذہب سے دوری نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ہم نے مذہب سے دوری کے نتائج کو جان بوجھ کر نظر اندازکرنے کا وتیرہ اپنا رکھا ہے۔ ہر شعبے میں موجود مافیا نے ستیا ناس کر کے رکھ دیا ہے ۔
حال ہی میں ایک ملا زمہ نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی ما لکہ سے وفا داری نہیں کی۔ چھو ٹی موٹی چوریوں کے باوجود میری ضروریات پوری نہیں ہو سکیں۔ میں مالکوں کی نظروں سے بھی گر گئی ،نوکری چھوٹ گئی اور عزت بھی نہ رہی ۔ اب مجھے کوئی اپنے گھر نوکری نہیں دے رہا ۔کاش میں صبر سے کام لیتی کیونکہ اب پتہ چلا ہے کہ بھوک کیا ہوتی ہے ۔ جب نوکری تھی تومالکن سے میں جتنا کھانا مانگتی تھی، وہ خوشی سے دے دیتی تھی۔ نا شکری کا انجام آج میرے سامنے ہے۔
ایک ٹرالی ڈرائیور نے بتایا کہ ہم پولیس والوں کو بھتہ دے کر قانون کو مٹھی میں بند کر لیتے ہیں پھر کوئی مائی کا لعل ہمیں چھو بھی نہیں سکتا۔ بھوسے یا کسی اور سامان کو کوئی چیک نہیں کر سکتا۔ ایسے میں قانون جب خود مجرموں کی پشت پناہی کرے گا تو شکایت کس سے کریں؟ 
کتابوں میں لکھا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے لیکن آج یہ کہنا بجا ہو گا کہ’’ایجاد،ضرورت کی صاحبزادی ہے۔‘‘ آج زندگیاں سنسنی خیز ہو چکی ہیں۔دور حاضر میں غربت نے ڈیرے ایسے ڈالے ہیں کہ اب حقیقت یوں سامنے آ چکی ہے کہ’’غربت ایجاد کی ماں بن چکی ہے۔‘‘
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصاویر حقائق کی خاموش داستانیں بیان کرتی ہیں۔نہ جانے یہ مجبور لوگ اتنے بڑے پیمانے پر لوڈ نگ کیسے کرتے ہیں؟ ایسے حالات، حادثات کا باعث بھی بن جاتے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق 80 فیصد سڑک حاثات ترقی پذیر ممالک میں ہوتے ہیں جن میں ہمارا وطن عزیز شامل ہے۔2010ء میں 211 اموات شہر کراچی میں سڑکوں پر ہونے والے واقعات سے ہوئیں۔  وطن میں نظم و ضبط ناپید ہونے سے زندگیاں بوجھ بن چکی ہیں۔ہاں اگر ایسی ٹریفک کے لئے الگ ٹریک بنادیئے جائیں تو صورتحال قابل قبول ہو سکتی ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں انسانوں کی کوئی قد ر نہیں۔
  پاکستان میں صاحبان اختیارکے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔انہیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ استبداد کا راستہ چھوڑ کر قومی مفادات کو ترجیح دینی چاہئے ۔ انہیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ حشر میں رب کریم کے سامنے جواب دینا بہت مشکل ہو گا ان کی حیثیت باغبان کی سی ہے جو اپنے گلشن کا ذمہ دار ہوتا ہے لیکن اپنے ہاں توحالت یہ ہے کہ:
بھوک پھرتی ہے مرے ملک میں ننگے پا ؤں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
کاش ہمارے صاحبان کو وہ نظر مل جائے جو ان التجاؤںکو پڑھ لے جو عوام کے چہروں پر لکھی ہوتی ہیں۔ انہیں قانون شکنی سے روکنا انہی کا کام ہے۔ زندہ قوموں کا یہ شیوہ ہے کہ کہ وہ اپنی محنت اور تند ہی سے دنیا میں اپنا وقار بلند رکھتی ہیں ۔آئیے مل کر یہ فیصلہ کریں کہ :
موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خا طر سو دکھ جھیلے، گھر تو آخر اپنا ہے
محرومی کسی بھی شے کی ہو ،انسان کو انسان نہیں رہنے د یتی۔ معاشرت رواں رکھنے کے لئے وطن میں ہر طرح کے ادارے موجود ہیں لیکن انہیں فرائض کی ادائیگی کا احساس نہیں البتہ یہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے معاشرتی مسائل میں اضافے کا سبب ضرور بن رہے ہیں۔ وطن کے درو و دیوار چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ:
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
وطن کوئی کھلونا نہیں کہ جس نے چاہا کھیل لیا۔ ہمیں اجتماعی کوششوں سے خود احتسابی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہو گا ۔فضول خرچی کو چھوڑتے ہوئے اپنے حصے کا نوالہ بانٹنا ہو گا۔ اپنی سیاسی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھانی ہوں گی تاکہ محب وطن باگ دوڑ سنبھال سکیں۔پارٹی بازی سے اجتناب وقت کا تقا ضا ہے، بلا شبہ اللہ کریم انہیں کی مدد فرماتا ہے جو اپنی مد دآپ کرتے ہیں۔
 
 

شیئر: