Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمارا قانون غریبوں کیلئے شیر، امیروں کیلئے بھیگی بلی

عموماً بااثر طبقات کیلئے  ہمارے ہاں قانون نہیں ہوتا بلکہ یہ  ناچار اور زندگی سے بے زار لوگوں پر لاگو کیا جاتاہے،  بااختیار اہلکار جیسے  چاہیں، قانون سے کھیلتے ہیں 
عنبرین فیض احمد۔ریاض
معاشرے کی بھلائی اسی میںنظر آتی ہے کہ قانون کا احترام  کیا جائے ۔   ہر فرد کی ذمہ  داری ہے کہ وہ قانون کا احترام کرے خواہ اس کا تعلق  حکمراں طبقے سے ہو ای  عام شہری سے۔  معاشرے یا  ملک میں قانون کی عملداری نہیں ہوگی  تو  قانون کا احترام  مفقود ہی نظر آئے گا لہذا جب ملک  میں لاقانونیت ہوگی تو یقینا اس کے نتیجے میں ظلم  و زیادتی کا بازار گرم ہوتا چلا جائے گا۔ 
حقیقت  یہ ہے کہ اب تو قانون کی پاسداری  معاشرے میں مضحکہ خیز  معلوم ہوتی ہے ۔ دیکھا  گیا ہے کہ  سماجی سطح پر قانون شکنی  عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ دفاتر   ہو ں ، مارکیٹ یا کوئی اور جگہ ،ہر قدم پر ایسا  چہرہ عام طور پر  دیکھنے کو ملتا ہے۔  دیکھا جائے توگاڑی چلانا  بھی جان جوکھوں کا کام   بن چکا ہے ۔ آپ خواہ کتنے ہی  آرام اور احتیاط سے گاڑی چلا رہے ہوں  لیکن اچانک   پیچھے یا آگے  سے کوئی   آن ٹپکتا  ہے۔ ایسے میں  اپنے آپ کو  بچانا  انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ ملک میں  ٹریفک کے حادثات کی  بڑھتی شرح  لمحہ فکریہ ہے جس میں کتنی ہی  قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ۔  محتاط اندازے کے مطابق  پاکستان بھر میں  اوسطاً  18  افراد  روزانہ ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر  جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ علاوہ ازیں  متعدد افراد زندگی بھر کیلئے معذور بھی ہوجاتے ہیں۔ آئے دن ملک کے مختلف  حصوں میں ٹریفک   کے بڑے  حادثات بھی   خبروں کی زینت بنتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان  کا شمار  ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹریفک حادثات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ یہ کہنا غلط  نہیںہوگا کہ ذمہ داران کی غفلت سے ٹریفک حادثات   معمول بن کر رہ گئے ہیں۔حادثات میں روز بروز اضافہ  ہماری لاپروائی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کی روک  تھام  کیلئے حکومتی سطح پر  کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے۔  افسوس کہ ہر حادثے کے بعد انتظامیہ اپنی  حقائق  چھپانے کی ناکام کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔حادثات کی روک تھام  کا لائحہ عمل طے  کرنے کیلئے اعلانات بھی کئے جاتے ہیں۔  بیان داغے جاتے ہیں لیکن ایسا کیوں نہیں ہوتا  کہ کوئی  حادثہ ہونے   کے بعد کسی   اگلے سانحے سے بچاؤ  کیلئے کسی قسم کا دیرپا اور مستقل انتظام کر لیاجائے ؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر سانحہ کے بعد کوئی نیا حادثہ پیش آجاتا ہے مگر  ذمہ داروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
دھنک کے صفحے پر ایک ٹریکٹر ٹرالی کو دکھایا گیا ہے جس میں کئی من بھوسہ لاد کر لے جایا جارہا  ہے۔  یہ ٹریکٹر ٹرالی اس  بھوسے کی وجہ سے  اوور لوڈ  ہے جو نہ صرف قانوناً  بلکہ اخلاقی طور پر بھی  جرم ہے۔ اس سے ٹریفک روانی متاثر ہوتی ہے لیکن  سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا  ٹریکٹر ٹرالی کے ڈرائیور کو پولیس یا کسی دوسرے سرکاری اہلکار کے ہاتھوں  پکڑے جانے کا خوف نہیں؟ ہوسکتا ہے اسے معلوم ہو کہ اگر وہ پکڑا بھی گیا تو  اس کاکوئی کچھ نہیں  بگا ڑ سکے گا ۔ دوسرے لفظوں میں اگر کسی نے پکڑنے کی  جرأت کی   تو اس کا وہ حشر ہوگا کہ  ساری زندگی  پچھتانے اور آنسو بہانے کے  سواکوئی چارہ نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے جب بعض کالی بھیڑیں ہی قانون شکن بن جائیں تو کس سے عوام انصاف کی امید کریں گے۔
بدقسمتی ہے کہ  ملک میں ہر قسم کے مافیا کا راج ہے جو  ناسور بن کر رہ گیا ہے۔ عوام کی زندگی عذاب سے کم نہیں ۔  یہ ایسا مافیا ہے جو زندگیوں میں شامل ہوچکا ہے۔کسی کو  سکھ کا سانس لینے دیتا ہے نہ ہی  جیتنے دیتا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ یہ  معاشرے کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں۔ مافیاایک ایسا خوف بن کر  سروں پر مسلط ہے جو  سنائی دیتا ہے نہ دکھائی  دیتا ہے، پس پردہ رہ کر  اپنی کارروائیوں سے اپنا الو سیدھا کرتا رہتا ہے۔ یہی المیہ ہے  معاشرے کا۔
 معاشرے میں کئی اقسام کے  مافیاؤںکے   کارندے دندناتے پھرتے ہیں جو غریب عوام کو ظلم کانشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ویسے بھی  ملک میں قانون توہے مگر اس کی عمل داری  نہیں ۔   غریبوں کیلئے قانون ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ پھانسی کا پھندا بھی  زیادہ تر غریبوں کے گلے کیلئے  ہی  ہے۔  قانون انگڑائیاں  تو لیتا  ہے ، جاگتا بھی ہے،شیروں کی طرح دھاڑتا بھی ہے مگر صرف  غریبوں کیلئے۔ امیروں  کے آگے بھیگی بلی بن جاتاہے۔ جو کوئی  طاقتور  یا   امیر  جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ  کبوتر کی مانند انکھیں موند لیتا ہے۔  اسی  لئے تو کہا جاتا ہے کہ قانون اندھا ہوجاتا ہے۔  غریبوں  پر تو قانون کے  اہلکار بھی شیر ہوتے ہیں جبکہ وہ  امیروں کے جوتے سیدھے کرنے میں بھی  کوئی  کسر نہیں چھوڑتے۔ جس ملک میں کرپشن اور  رشوت کا بازار گرم ہو اور بڑے بڑے مگرمچھ کرپشن  میں ملوث  ہوں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو، غریبوں کیلئے انصاف کا حصول ناممکن بنا دیاگیا  ہو ، وہاںاس ٹریکٹر ٹرالی کی اوور لوڈنگ جیسی قانون شکنی تو کسی شمار میں ہی نہیں ۔ ہمارے معاشرے میںقانون  عموماً بااثر طبقات کیلئے نہیں ہوتا بلکہ  صرف اور صرف بے  حیثیت، ناچار اور زندگی سے بے زار لوگوں پر لاگو کیا جاتاہے اس لئے  بااختیار اہلکار جیسے  چاہتے ہیں، قانون سے کھیلتے ہیں ۔
بظاہر تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ جمہوریت اور عوامی حکومت کا دور دورہ  ہو تو عوام کی فلاح و بہبود کے کام ہوتے  ہیں اور ان کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے ، ان کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں مگر  حقیقتاً   عوام کی اکثریت پر مافیا مسلط ہوتا ہے ۔ مافیا  کسی شخص یا گروہ کا نام نہیں  بلکہ یہ ایک  بچھا ہوا جال ہے جس کے پاس  اختیار ہے ، طاقت ہے، دولت ہے ، وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو،یہ مافیا ہر دور میں موجود ہوتا ہے جو اپنی مرضی کے مطابق کام کرتاہے ۔ 
ٹریکٹر ٹرالی پر تو بظاہر بھوسہ دکھائی دے رہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے اندر مسروقہ سامان بھی اسمگل ہوسکتا ہے ۔  ناجائزاسلحہ یا  نشہ آور اشیاء اسمگل کی جاسکتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اغوا شدہ بچے بھی کبھی  ایک جگہ سے دوسری جگہ  ان ہی  چیزوں  کے ذریعے پہنچائے جاتے ہیں۔ سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ  عام شاہراہ سے ہی   ان کا گزر ہوتا ہے جہاں پر پولیس  اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی ڈیوٹی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ بڑے ہی آرام سے  شاہراہوں سے گز ر جاتے ہیں ۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہوتا کیونکہ ان اہلکاروں کو پہلے ہی آگاہی ہوجاتی ہے کہ  ٹریکٹر ٹرالی نے گزرنا ہے۔ اس لئے ان کو کوئی پکڑتا  نہیں۔  ان کا معاوضہ  بھی ملتا ہے ۔ ایک طرف مافیا پیسے بنا رہا ہے اور دوسری   طرف کالی بھیڑیںاپنی جیبیں بھر رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مافیا کا قلع قمع کیسے کیاجائے۔ اٹلی جیسا ملک جس میںکبھی مافیا  کا راج تھا ،وہ  جو کچھ چاہتا تھا، کیا کرتا تھا۔ اگر اس کے کارندے پکڑے جاتے تو ججوں کو بھی   دھمکیاں ملتیں۔  یہی حال  ہمارے ہاں بھی ہوتا جا رہا ہے۔ہمارے ہاں کچھ  فیصلے فون سے ہوتے  ہیں  تو کچھ پیسوں کے زور پر۔ بدنصیبی ہماری ہے کہ رشوت اور بدعنوانی کا   نظام  معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے ۔ برسہا برس اس کی آبیاری ہوتی رہی ہے جس  کی وجہ  سے یہ  نظام تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے لہٰذا  اس درخت کو اکھاڑ پھینکنا مشکل  نظر آتاہے۔
حقیقت  یہ بھی ہے کہ  خواہ کوئی کتنا ہی طاقتور  اور مضبوط کیوں نہ ہو  ،پہاڑ کے نیچے ضرور آتا ہے۔ ان شاء اللہ، پاکستان کے عوام  کے نیچے بھی مافیا کا اونٹ آئے گا ۔عوام ہی اس طرح اس کا قلع قمع کریں گے جس طرح دوسرے ممالک کے عوام نے  اپنے ہاں مافیا کو قابو کیا۔ پھر دنیا ہمیں سنہرے الفاظ میں یاد  کرے گی۔ 
 
 
 

شیئر: