Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی سی آر، ریپڈپی سی آر، ریپڈ اینٹی جن ٹیسٹوں میں فرق کیا؟

متحدہ عرب امارات نے مسافروں کو پی سی آر کے ساتھ ساتھ ریپڈ پی سی آر ٹیسٹ کی منفی رپورٹ لانے کی شرط عائد کی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
گزشتہ سال کے آغاز پر جب کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو اس سے بچاؤ کا سب سے پہلا طریقہ کورونا ٹیسٹ ہی ایجاد ہوا تاکہ تشخیص کے بعد مریض کو قرنطینہ کرتے ہوئے اس کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔
سائنس دانوں نے انتہائی قلیل وقت میں ٹیسٹنگ کٹس تیاری کیں اور دنیا کی ایک بڑی آبادی کورونا ٹیسٹوں کے مراحل سے گزری۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دنیا کی 20 کروڑ سے زائد آبادی کورونا وائرس کا شکار ہوئی ہے تو ایک اندازے کے مطابق اس سے دوگنا یا اس بھی زائد نے اپنے ٹیسٹ کرائے ہیں۔
جنوری 2021 میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے جہاں بہت سے نئے ٹیسٹوں کی فہرست جاری کی وہیں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے تین قسم کے ٹیسٹوں کی تجویز بھی دی، جن میں پی سی آر یعنی پولی میریز چین ری ایکشن ٹیسٹ، ریپڈ اینٹی جن ٹیسٹ اور ریپڈ پی سی آر ٹیسٹ شامل ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ کورونا کی ابتدائی تشخیص کے ساتھ ساتھ اس کے پھیلاؤ کو روکنے اور دنیا بھر میں سفر کے لیے کورونا ٹیسٹ کی شرط رکھی گئی ہے۔
ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لیے ابتدائی طور پور کورونا پی سی آر ٹیسٹ رکھا گیا جبکہ جس ملک بھی جانا ہوتا وہاں پہنچنے پر بھی قرنطینہ اور ٹیسٹوں کی شرائط رکھی گئیں۔
حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے مسافروں کو پی سی آر کے ساتھ ساتھ ریپڈ پی سی آر ٹیسٹ کی منفی رپورٹ لانے کی شرط عائد کی گئی ہے جبکہ پاکستان نے اماراتی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ریپڈ اینٹی جن ٹیسٹ کو تسلیم کرے۔
ایسے میں عام مسافروں کو معلوم ہی نہیں کہ ان ٹیسٹوں میں فرق کیا ہے؟ یہ کب کیے جاتے ہیں اور ان کے کرانے کی وجوہات کیا ہیں؟
ان ٹیسٹوں کے بارے میں ماہرین سے بات کی گئی ہے جن سے ان ٹیسٹوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

پی سی آر کورونا ٹیسٹ

یہ ٹیسٹ کورونا کی تشخیص کے لیے سب سے موثر ٹیسٹ سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ چھوٹے سے چھوٹے اور وائرس کی کم سے کم تعداد کی تشخیص کی صلاحیت رکھتا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے مسافروں کو پی سی آر کے ساتھ ساتھ ریپڈ پی سی آر ٹیسٹ کی منفی رپورٹ لانے کی شرط عائد کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستانی کی معروف سٹی لیب کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر بدرعالم نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پی سی آر ٹیسٹ کورونا کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی انسان میں اس کی موجودگی کا پتہ چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جس سے کورونا کا پھیلاؤ روکنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم یہ مہنگا ہے۔ اس ٹیسٹ کے کرنے کے لیے خصوصی تربیت یافتہ عملے کے ساتھ ساتھ خصوصی لیب مشینری بھی درکار ہے۔ـ‘
بائیو سائنٹسٹ سید انصر مہدی نے اردو نیوز سے گفتگو میں پی سی آر ٹیسٹ کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا کہ ’یہ ٹیسٹ بنیادی طور پر انسانی ڈی این اے سے کیا جاتا ہے۔ مخصوص کٹ کے ذریعے انسان کا لعاب، بلغم یا تھوک لے کر ایک مخصوص وقت کے لیے مشین میں ڈالا جاتا ہے۔ چونکہ وائرس اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ وہ ٹیلی سکوپ سے بھی نظر نہیں آتا اس لیے اس ٹیسٹ میں اس کی تعداد بڑھائی جاتی ہے۔ اگر وائرس موجود ہو تو تعداد بڑھانے سے وہ نظر آ جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس ٹیسٹ کی رپورٹ آنے میں کم از کم دس سے بارہ گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے لگتے ہیں۔‘
سید انصر مہدی کا کہنا ہے کہ ’یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک سفر کے لیے پی سی آر کی منفی رپورٹ کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ اس ٹیسٹ کو اگر درست انداز میں کیا گیا تو جسم میں وائرس کی موجودگی کا پتہ چلنے کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔‘

پی سی آر ریپڈ ٹیسٹ

ماہرین کے مطابق ریپڈ پی سی آر ٹیسٹ در اصل پی سی آر ٹیسٹ کی ہی جدید شکل ہے۔ ایڈوانسڈ لیب کراچی کے فیصل اکبر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس ٹیسٹ کا طریقہ کار وہی ہے جو پی سی آر ٹیسٹ کا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پی سی آر کی رپورٹ 24 گھنٹے میں آتی ہے جبکہ ریپڈ پی سی آر کی رپورٹ چار گھنٹے میں آ جاتی ہے۔‘

پی سی آر ٹیسٹ کی رپورٹ آنے میں کم از کم 10 سے 12گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے لگتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بائیو سائنٹسٹ سید انصر مہدی نے بتایا کہ ’عموماً مسافر سفر سے 72 گھنٹے پہلے پی سی آر ٹیسٹ کراتے ہیں۔ ممکن ہے اس وقت ان میں کورونا وائرس موجود نہ ہو اور وہ بعد میں کورونا کا شکار ہو گئے ہوں یا پی سی آر ٹیسٹ کی رپورٹ میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے۔ اس خدشے سے بچاؤ کے لیے مسافروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ روانگی سے چھ گھنٹے پہلے ٹیسٹ کرائیں جس کی رپورٹ چار گھنٹے میں مل جاتی ہے۔ یوں کورونا کا پھیلاؤ روکنے کا یہ ایک موثر ذریعہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تاہم ریپڈ پی سی آر کی سہولت ابھی عام نہیں ہوئی۔ اس لیے پاکستان جیسے ملکوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس میں جدید مشینری کا استعمال ہوتا ہے اور ٹیسٹ کے لیے نمونہ جات کو سنبھالنے کی باضابطہ پیشہ وارانہ تربیت ہوتی ہے۔‘

ریپڈ اینٹی جن ٹیسٹ

ریپد اینٹی جن ٹیسٹ عموماً ایئر پورٹس کے اوپر کیا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ کار پی سی آر ٹیسٹ سے مختلف ہے۔ یہ عموماً ایسے مریضوں میں وائرس کی موجودگی کا بتاتا ہے جو پہلے سے کورونا علامات رکھتے ہوں۔ ایسے مریضوں میں وائرس پروٹین بہت ایکٹو ہوتا ہے اس لیے یہ آسانی سے بتا سکتا ہے کہ یہ علامات کورونا وائرس کی ہیں یا عمومی بخار یا فلو ہے۔
طبی ماہرین اس ٹیسٹ کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے یہی وجہ ہے جس فرد میں ریپڈ اینٹی جن ٹیسٹ کے ذریعے کورونا کی تشخیص ہو اس کے لیے پی سی آر ٹیسٹ بھی تجویز کیا جاتا ہے۔

اینٹی باڈی ٹیسٹ کرا کے پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ مریض کے جسم میں اینٹی باڈیز بن چکی ہیں یا نہیں؟ (فوٹو: اے ایف پی)

سید انصر مہدی اس ٹیسٹ کے طریقہ کار کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’یہ ٹیسٹ ایک طرح سے پریگنینسی ٹیسٹ کی طرز پر ہی ہے۔ کسی بھی فرد کا لعاب، تھوک یا بلغم اس کے ناک یا گلے سے لے کر ایک سٹرپ پر رکھی جاتی ہے۔ اگر مریض میں کورونا وائرس موجود ہو تو سٹرپ پر دو پٹیاں اور نہ ہونے ہونے کی صورت میں ایک پٹی ظاہر ہوتی ہے۔‘

 اینٹی باڈیز ٹیسٹ

اس ٹیسٹ کی کسی سفری یا قانونی لحاظ سے تو کوئی ضرورت نہیں ہے تاہم اگر کوئی شخص علامات کے ساتھ کورونا کا شکار ہوا ہو یا کسی کو کورونا ہوا ہو اور اسے پتہ ہی نہ چلا ہو تو وہ اینٹی باڈی ٹیسٹ کرا کے پتہ چلا سکتا ہے کہ اس کے جسم میں اینٹی باڈیز بن چکی ہیں یا نہیں؟ اگر اینٹی باڈیز موجود ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ انسان کے جسم میں قدرتی مدافعتی نظام نے حملہ آور وائرس کے خلاف اپنی فوج کھڑی کر دی ہے۔

شیئر: