Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی کا کراچی میں ترقیاتی کام محض ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘؟

وسیم اختر کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی والے اتنے ہی مستعد تھے تو میری سبکدوشی کے بعد سال بھر میں کوئی ترقی یا تبدیلی کیوں نہ لے آئے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
مرتضیٰ وہاب بطور ایڈمنسٹریٹر کراچی عہدہ سنبھالنے کے بعد روزانہ ہی کسی نئے کام کا افتتاح یا کسی پراجیکٹ کی تکمیل کا اعلان کر رہے ہیں، جسے کراچی کے سابق میئر وسیم اختر نے’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ قرار دیا ہے۔
وسیم اختر کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی والے اتنے ہی مستعد تھے تو میری سبکدوشی کے بعد سال بھر میں کوئی ترقی یا تبدیلی کیوں نہ لے آئے۔‘
واضح رہے کہ الیکشن کے ذریعے بلدیاتی حکومت کی معیاد گذشتہ سال ختم ہونے کے بعد سے صوبائی حکومت ایڈمنسٹریٹرز تعینات کر کے شہر کا انتظام چلا رہی ہے۔ عموماً تمام ایڈمنسٹریٹرز ڈپٹی کمشنر کی سطح کے حکومتی افسران ہوتے ہیں، تاہم حال ہی میں سندھ حکومت نے اپنے ترجمان اور وزیرِاعلیٰ کے مشیر مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا ہے۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مرتضیٰ وہاب روزانہ کسی نئے پراجیکٹ کا افتتاح یا اس کی تکمیل کا اعلان کرتے اور شہر کے مختلف علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرتے نظر آتے ہیں۔
اس حوالے سے ان کی جانب سے متعدد ویڈیوز بھی عوام کے لیے شیئر کی جاتی ہیں۔ گذشتہ چند دنوں میں جاری کردہ ان ویڈیوز میں کبھی اولڈ سٹی ایریا میں سڑکوں کی کارپٹنگ، کبھی عائشہ منزل میں اربن فاریسٹ، سی ویو اور منوڑہ کی ساحلی پٹی پر ترقیاتی کام تو کبھی سڑکوں کی مرمت اور سٹریٹ لائٹس کی تنصیب کے کام کی تشہیر کی جاتی ہے۔
سابق میئر کراچی وسیم اختر نے اردو نیوز کو بتایا کہ کسی بھی ترقیاتی پراجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے اس کا بجٹ اور پی سی ون منظور کرنے میں ہی کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ سو اگر کوئی بھی پراجیکٹ اب مکمل ہو رہا ہے، سو اس کا واضح مطلب ہے کہ اس کی منصوبہ بندی سال پہلے کی گئی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے یہ اقدامات عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہیں۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مرتضیٰ وہاب روزانہ کسی نئے پراجیکٹ کا افتتاح کرتے نظر آتے ہیں۔ (فائل فوٹو: مرتضیٰ وہاب فیس بک)

’ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے ابھی اچانک سے پیپلز پارٹی نے شہر کی باگ ڈور سنبھالی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ 12 برسوں سے تمام تر اختیارات پیپلز پارٹی کے پاس ہیں۔‘ وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ان کے چار سالہ دور کے دوران پیپلز پارٹی نے تمام  پراجیکٹس کے بجٹ روکے رکھے اور کسی بھی قسم کے اختیارات میئر کو منتقل نہیں کیے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اب تو صوبائی حکومت بھی پیپلز پارٹی کی ہے اور ایڈمنسٹریٹر بھی انہی کا ہے، تو کیا ایسے میں اس بات کا زیادہ امکان نہیں کہ پیپلز پارٹی بہتر طریقے سے شہر کی نظامت کر سکے کی، تو وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ’یہاں نیت کا فقدان ہے۔‘
’پیپلز پارٹی کی سندھ میں کام کرنے کی نیت ہی نہیں، اگر یہ لوگ سندھ سے مخلص ہوتے تو لاڑکانہ، سیہون اور دیگر شہروں میں ہی ترقیاتی کام کروا لیتے، وہاں تو سالہا سال سے ہر سطح پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، پھر بھی وہ شہر شدید پسماندگی کا شکار ہیں، لہٰذا کراچی کے لیے بھی ان سے کچھ توقع رکھنا بے کار ہے۔‘

الیکشن کے ذریعے بلدیاتی حکومت کی معیاد گذشتہ سال ختم ہونے کے بعد سے سندھ حکومت انتظام چلا رہی ہے۔ (فائل فوٹو: ان سپلیش)

کراچی کے شہریوں کی دوسری نمائندہ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی بھی شہر میں عوامی نمائندوں کے بجائے صوبائی حکومت کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی پر تحفظات رکھتی ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ یہ ایک آمرانہ اقدام ہے کہ ایک ایسی پارٹی جس کا شہر میں مینڈیٹ نہیں، وہ سیاسی بنیادوں پر اپنے منظورِ نظر ایسے افراد کو شہر کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کر رہی ہے جو یہاں سے جنرل الیکشن بھی نہیں جیت سکا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کراچی کو وڈیرہ شاہی کے طریقے سے چلانا چاہتی ہے اور سیاسی وابستگی والے فرد کو ایڈمنسٹریٹر تعینات کر کے سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کو ملتوی اور ان کے نتائج پر اثر انداز ہونے کا پلان بنا چکی ہے۔
واضح رہے کہ مرتضیٰ وہاب نے 2018 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 111 کے لیے کراچی کے علاقے کلفٹن سے انتخاب لڑا تھا تاہم ووٹ ڈالنے کے تناسب کے حساب سے ان کا امیدواروں میں پانچواں نمبر رہا۔
بعد ازاں پیپلز پارٹی نے انہیں صوبائی حکومت کے ترجمان اور وزیرِاعلیٰ کے مشیر کا قلمدان سونپ دیا تھا، جو تاحال ان کے پاس ہے۔ اب انہیں ایڈمنسٹریٹر کراچی کی اضافی ذمہ داری بھی دے دی گئی ہے۔

شیئر: