Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان نے صرف سات دنوں میں پورے افغانستان پر کیسے قبضہ کیا؟

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد برسلز میں افغان شہری مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک ہفتہ قبل جب طالبان نے دور دراز گاؤں دیہات کے علاوہ اہم سرحدی تجارتی راہداریوں پر قبضہ کیا تب بھی کئی لوگ یہ امید کر رہے تھے کہ جنگجوؤں کو روکا جا سکے گا۔ لیکن اس کے بعد عسکریت پسند شہروں کو فتح کرتے رہے اور پھر کابل میں حکومت کا تختہ گرا کر اقتدار سنبھال لیا۔
کابل میں ایک ہفتہ قبل زندگی معمول کے مطابق تھی۔ قدرے مطمئن شہری جمہوریت اور آزادی کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہے تھے مگر پھر صرف سات دن بعد ہر کوئی ملک سے نکلنے کے لیے ایئر ٹکٹ خریدنے کے لیے بھاگ دوڑ میں مصروف ہو گیا، ہزاروں شہری زندگی اپنی جمع پونجی بینک کی اے ٹی ایم مشینوں سے نکالنے کے لیے تگ و دو میں جُت گئے۔
کابل یونیورسٹی کی 22 سالہ طالبہ عائشہ خرم کے مطابق ’لوگ اس وقت ایک ہی چیز کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ یہاں زندہ کیسے رہیں یا پھر یہاں سے کیسے نکلیں۔‘
اپنی تعلیم اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا شکار طالبہ کو نہیں معلوم کہ وہ دوبارہ یونیورسٹی جا سکیں گی یا پھر ان کو مزید پڑھائی سے روک دیا جائے گا۔ عائشہ خرم کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس صرف اب خدا ہے۔‘
ایک ایسا ملک جو نسلوں سے جنگ کا شکار ہے اس کے شہریوں کے لیے بھی گزشتہ ہفتے کے سات دن حیران کُن تھے۔

پیر 9 اگست

ہفتے کا آغاز پیر کی صبح اس خبر کے ساتھ ہوا کہ جنگجوؤں نے افغانستان کے شمالی شہروں ایبک اور سرِپُل پر قبضہ کر لیا ہے۔
کئی اضلاع میں سرکاری افواج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے جبکہ کئی علاقوں میں جہاں لڑائی چھڑ گئی وہاں سے سینکڑوں شہری اپنا گھر بار چھوڑ کر افراتفری میں سینکڑوں کلومیٹر پیدل سفر کرتے دیکھے گئے۔
شمالی افغانستان کے صوبے تخار سے نکلنے والی بی بی رقیہ نے بتایا کہ ان کے گھر پر بم حملہ ہوا۔ ’ہم چپل پہنے ہی گھر سے نکل پڑے، جوتے پہننے کا موقع ہی نہیں تھا اور ہمیں ہر صورت جان بچانا تھی۔‘

منگل 10 اگست

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے اور طالبان کو خبردار کیا کہ طاقت کے زور پر کیے گئے قبضے کو عالمی براردی نہیں مانے گی اور جنگجوؤں کو دنیا خود سے کاٹ کر رکھے گی۔

طالبان کے سات دنوں کے اندر پورے افغانستان پر قبضے نے دنیا بھر کو حیران کر دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے جنگجو آگے بڑھتے رہے اور سفارت کاری کے ذریعے معاملہ حل کرنے کے امکانات معدوم ہوتے گئے۔ طالبان کی فورسز نے مغربی شہر فاراہ پر قبضہ کر لیا اور ان کے جنگجو صوبائی گورنر کے دفتر کے باہر کھڑے دیکھے گئے۔
جیسے جیسے امریکہ و اتحادی افواج کی افغانستان کے نکلنے کی ڈیڈلائن قریب آتی گئی طالبان جنجگوؤں کی پیش قدمی میں تیزی دیکھی گئی۔ کابل کے پارک ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے بے گھر افغانوں سے آباد ہونے لگے۔
اس دوران اقوام متحدہ نے جنم لینے والے انسانی بحران کی جانب توجہ دلائی اور ادارے کی انسانی حقوق کی سربراہ مچلے بیچلیٹ نے کہا کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں اور زخمیوں کی درست تعداد معلوم کی جا رہی ہے جو بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔

بدھ 11 اگست

دن کے آغاز پر اطلاعات سامنے آئیں کہ طالبان نے تین مزید صوبوں کے دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے جن میں بدخشاں، بغلان اور فاراہ شامل تھے۔ اس طرح طالبان کو دو تہائی افغانستان پر کنٹرول حاصل ہو گیا۔
افغان صدر اشرف غنی اس دوران صوبہ بلخ پہنچے جس کا چاروں اطراف سے طالبان جنگجوؤں نے محاصرہ کر رکھا تھا۔ اشرف غنی نے بلخ میں ظلم اور کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے وار لارڈز کی مدد سے طالبان کو پیچھے دھکیلنے کی اپنی سی کوشش کی۔

افغانستان میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران شورش کی وجہ سے ہزاروں شہری کابل کی جانب آئے۔ فوٹو: اے ایف پی

وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان کی سرکاری افواج کی جانب سے جنگجوؤں کی مزاحمت میں ناکامی کی انٹیلی جنس اطلاعات پر ملک چھوڑنے والے افغانوں کے انخلا کے منصوبے کی منظوری دی۔
افغان سپیشل فورسز جن پر ملک کے مخلتف محاذوں پر دفاع کا بوجھ تھا کی تعداد تیزی سے کم ہوتی گئی۔
اس دوران طالبان کی پیش قدمی بڑھتی گئی اور قبضے توسیع اختیار کرتے رہے۔ جنگجو اب ایم 16 رائفلز اٹھائے امریکی ہمویز اور فورڈ ٹرکوں پر نظر آئے۔

جمعرات 12 اگست

طالبان کو ملک کے دور دراز علاقوں اور گاؤں دیہات تک محدود رکھنے کی امیدیں دم توڑ گئیں جب ملک کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر طالبان کے قبضے میں چلے گئے۔

قندھار کے ریڈیو سٹیشن سے پشتو اور انڈین گانے نشر ہوتے تھے، طالبان کے قبضے کے بعد میوزک کی آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ہرات اور قندھار پر قبضے کے بعد اب درجنوں صوبوں کے اہم شہر جنگجوؤں کی گرفت میں تھے۔ سکیورٹی کی صورتحال دگرگوں ہوئی تو امریکہ نے اعلان کیا کہ کابل سے سفارتی عملے کو نکالنے کے تین ہزار فوجی بھیجے جا رہے ہیں۔
ہرات کی 26 سالہ رہائشی زہرہ نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ اور تین بہنوں کے ساتھ رات کے کھانے کے لیے جا رہی تھیں جب انہوں نے فائرنگ کی آوازیں سنیں اور شہریوں کو بھاگتے دیکھا جو چیخ رہے تھے کہ ’طالبان آ گئے ہیں۔‘
زہرہ کے مطابق انہوں نے اپنی ساری زندگی افغانستان میں گزاری ہے جہاں وہ گزشتہ پانچ برس سے ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ وابستہ ہیں جو خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی زندگی لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے کام میں آگے بڑھنے کے لیے لگائی، اب میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ گھر پر چھپ کر بیٹھ جاؤں۔‘
ہرات پر حملے کے دو ہفتے بعد شہر جنگجوؤں کے قبضے میں چلا گیا اور مقامی باشندوں کے مطابق کئی ایسے افراد جو جیلوں میں بند تھے وہ گلیوں میں گھومتے پھرتے دکھائی دیے۔

طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد ملک سے نکلنے کے لیے ہزاروں افراد ایئرپورٹ پر جمع ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی

جمعہ 13 اگست

طالبان کی بڑے شہروں پر قبضے اور پیش قدمی کے ساتھ ہی انتقامی کارروائیوں کی بھی خبریں سامنے آئیں۔ ایک کامیڈین، سرکاری میڈیا کے ایک سربراہ اور کئی دیگر مارے گئے۔
افغانستان میں بدلتے حالات کی علامتیں سامنے آںے لگیں۔
ہرات میں دو مبینہ ڈاکوؤں کے منہ کالے کر کے شہر کی گلیوں میں پریڈ کرائی گئی۔ یہ اس وقت کی ایک جھلک تھی جب طالبان اقتدار میں تھے۔
قندھار کے ریڈیو سٹیشن سے پشتو اور انڈین گانے نشر ہوتے تھے، طالبان کے قبضے کے بعد میوزک کی آوازیں آنا بند ہو گئیں۔
جنجگو نے طار مزید صوبوں پر قبضے کے بعد ملک کے جنوب پر قبضہ مکمل کر لیا۔ ان صوبوں میں ہلمند بھی شامل تھا جہاں انہوں نے ایک وقت میں امریکی، برطانوی اور اتحادی افواج کے ساتھ خونریز جنگیں لڑی تھیں۔
ان جنگوں میں سینکڑوں مغربی فوجی مارے گئے تھے اور اب ان کے اہلخانہ پوچھتے ہیں کہ انہوں نے جان کس لیے دی؟

طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد انڈیا سمیت کئی ملکوں کے سفارتکار افغانستان سے واپس چلے گئے۔ فوٹو: اے ایف پی

سنیچر 14 اگست

افغان صدر اشرف غنی نے قوم سے خطاب کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ 20 برس میں حاصل کی گئی چیزوں کو ضائع نہیں جانے دیں گے۔ تاہم جنجگو آگے بڑھتے گئے اور مزید فتوحات حاصل کرتے رہے۔
پاکستان کی سرحد کے ساتھ پکتیکا اور کنڑ صوبے طالبان کے قبضے میں چلے گئے۔ شمال میں فاریاب صوبے پر بھی جھنڈے گاڑ لیے گئے۔
ملک کے مرکز میں دیکنڈی پر قبضے کے بعد سب سے اہم مزار شریف پر طالبان جنگجوؤں کی گرفت تھی۔ یہ وہ شہر تھا جس کا سرکاری افواج نے ہر صورت دفاع کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
اس دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بار پھر کہا کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج کو نکالنے کے فیصلے پر قائم ہیں اور اس کو درست سمجھتے ہیں۔
کابل کے شمال میں لوگر صوبہ طالبان کے قبضے میں چلا گیا۔ اب دارالحکومت صرف سات میل کے فاصلے پر تھا۔

بعض علاقوں میں طالبان جنگجوؤں کے آنے کے بعد مقامی شہریوں نے افغان فورسز کی چھوڑی گئی گاڑیوں کی سواری کی۔ فوٹو: اے ایف پی

اتوار 15 اگست

اتوار کی صبح جب جلال آباد کے رہائشی جاگے تو شہر میں طالبان کے سفید جھنڈے لہرا رہے تھے۔ طالبان نے بغیر کسی جنگ یا مزاحمت کے شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔
افغان عہدیداروں نے تصدیق کی کہ ننگرہار کے گورنر نے خونریزی سے بچنے کے لیے جلال آباد طالبان کے حوالے کر دیا۔
اس کے کچھ دیر بعد بگرام ایئر بیس بھی افغان فورسز نے طالبان کے حوالے کر دیا جہاں پانچ ہزار قیدی تھے۔
طالبان کے پاس کوئی ایئر فورس نہیں تھی۔ امریکی تربیت یافتہ افغان فوج کے مقابلے میں جنگجوؤں کی تعداد بھی بہت کم تھی مگر ناممکن اب ممکن ہو گیا۔ اب کابل اور اس کے 50 لاکھ شہری طالبان کے رحم و کرم پر تھے۔
اشرف غنی ملک چھوڑ گئے اور ان کے صدارتی محل میں اسلحہ بردار جنگجو گھومتے نظر آئے۔ وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی نے کہا کہ ’انہوں نے ہمارے ہاتھ پیچھے باندھ دیے اور ملک کو فروخت کر دیا۔‘

شیئر: