Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین سفارتی عملے کا ایئرپورٹ تک سفر طالبان کے پہرے میں

افغانستان کے دارالحکومت کابل سے نکلنے کے لیے انڈیا کے سفارتی عملے نے طالبان سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے رابطہ کیا جس کے بعد جنگجو سفارتخانے سے ایئرپورٹ تک ان کو سکیورٹی فراہم کرتے رہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کابل میں انڈیا کے سفارتخانے کے آہنی دروازے کے باہر طالبان جنگجوؤں کا ایک گروپ مشین گن اور راکٹ لانچر کے گولے لیے کھڑا رہا جبکہ کمپاؤنڈ کے اندر انڈین شہریوں اور سفارتی عملے کے 150 افراد بے صبری سے ایئرپورٹ کے لیے جانے کے منتظر تھے۔
انڈین حکومت کی سابق صدر اشرف غنی کی مسلسل حمایت کی وجہ سے کابل میں سفارتی عملہ اور انڈین شہری پریشانی میں مبتلا رہے۔
انڈیا کی حکومت کی جانب سے کابل میں اپنے سفارت خانے کو بند کرنے کے فیصلے کے بعد کابل ایئرپورٹ پر فوجی طیارہ شہریوں اور سفارتی عملے کو نئی دہلی لے جانے کے لیے سٹینڈ بائی رہا۔
اے ایف پی کے مطابق کابل پر طالبان کے قبضے سے ایک دن قبل 200 انڈین شہری افغانستان سے نکل گئے تھے تاہم 150 افراد واپس انڈیا جانے کے منتظر تھے جب شہر میں طالبان داخل ہوئے۔
انڈیا سفارتی عملے نے اس وقت طالبان سے ایئرپورٹ تک تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کرنے کے لیے رابطہ کیا جب کابل کے گرین زون کو آنے جانے والے راستوں پر جنگجوؤں کی بڑی تعداد قابض ہو گئی۔
ایک انڈین سفارت کار نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب ان کو دوسرا گروپ کابل سے نکل رہا تھا تو سامنا طالبان سے ہوا، جنہوں نے گرین زون سے باہر نکلنے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔
’تب ہم نے طالبان سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہمارے قافلے کو ایئرپورٹ تک حفاظتی پہرے میں لے جایا جائے۔‘

سفارت کار کے مطابق سفارت خانے سے ایئرپورٹ تک پانچ کلومیٹر کا سفر کئی گھنٹوں میں طے ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ اس دوران دو مختلف مواقع پر سکیورٹی کے ساتھ ایئرپورٹ لے جانے کے وعدوں پر عمل نہ کیا جا سکا۔ 150 افراد سفارت خانے کے تہہ خانے میں بیٹھے انتظار کرتے رہے اور اس تجربے کو ایک سفارتکار نے ’گھر پر نظربندی‘ جیسا قرار دیا۔
سفارت خانے سے انڈیا جانے والوں میں اے ایف پی کا ایک نامہ نگار بھی شامل تھا۔
جس وقت طالبان جنگجو 24 گاڑیوں کے قافلے کو انڈین سفارت خانے سے کابل ایئرپورٹ کے لیے لے کر نکلے تو اسلحہ بردار کئی افراد نے ان کی جانب مسکرا کر دیکھا اور ہاتھ ہلا کر رخصت کیا۔
سفارت کار کے مطابق سفارت خانے سے ایئرپورٹ تک پانچ کلومیٹر کا سفر کئی گھنٹوں میں طے ہوا، سڑک کے دونوں اطراف ہجوم تھا اور قافلے کو تحفظ فراہم کرنے والے طالبان اپنی گاڑیوں سے اتر لوگوں کو پیچھے ہٹا کر راستہ بناتے رہے۔ 
طالبان وفد کی افغان رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں
افغان طالبان وفد کی سابق افغان صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سے پہلی بار باضابطہ ملاقات ہوئی ہے۔
کرزئی کے ایک ترجمان محمد یوسف ساہا نے اے پی کو بتایا کہ طالبان حکام کے ساتھ ابتدائی ملاقاتوں کے بعد سینئر طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔

افغان طالبان کے وفد کی سابق افغان صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات ہوئی ہے۔ (فوٹو: اے پی)

عبداللہ عبداللہ دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کرنے والی حکومتی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ بھی تھے۔ انس حقانی نے عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی سے ایک ساتھ ملاقات کی۔
طالبان ترجمان کے مطابق ملاقات میں افغان سینیٹ کے سابق چیئرمین فضل ہادی اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔
طالبان رہنما انس حقانی نے سربراہ حزبِ اسلامی گل بدین حکمت یار سے بھی ملاقات کی۔
امریکہ اور یورپی یونین افغان خواتین کے لیے پریشان
امریکہ، یورپی یونین اور 18 دیگر ملکوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے نہایت پریشان ہیں اور طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

سفارت خانے سے انڈیا جانے والوں میں اے ایف پی کا ایک نامہ نگار بھی شامل تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اے ایف پی کے مطابق بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم افغان خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم، کام کے حق اور نقل حرکت کی آزادی کے بارے میں پریشانی کا شکار ہیں۔ ہم افغانستان میں اختیار اور اقتدار رکھنے والوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے تحفظ کی ضمانت دیں۔‘
بیان کے مطابق ’تما افغان شہریوں کی طرح خواتین اور لڑکیاں بھی تحفظ اور عزت و وقار کے ساتھ کے زندگی گزارنے کا حق رکھتی ہیں۔ ان کو کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک اور برے برتاؤ سے بچایا جائے۔ ہم انٹرنیشنل کمیونٹی ان کی انسانی امداد اور تعاون کے لیے تیار ہیں تاکہ ان کی بات کو سُنا جانا یقینی بنایا جا سکے۔‘

شیئر: