Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابل میں سینکڑوں برقع پوش خواتین کا طالبان حکومت کی حمایت کا اظہار

مکمل حجاب میں ملبوس خواتین سنیچر کے روز کابل یونیورسٹی کے لیکچر تھیٹر میں جمع  تھیں۔ جہاں انہوں نے صنفی علیحدگی سے متعلق طالبان کی سخت گیر پالیسیوں سے اتفاق کا اظہار کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سر سے پیر تک برقعے میں ملبوث ہوئی تین سو خواتین نے طالبان کے جھنڈے لہرئے جب مقررین نے مغرب پر تنقید کی اور طالبان کی پالیسیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔
ان میں سے کچھ خواتین نے مقامی نیلا برقع پہنا تھا جس کے آنکھوں پر لگے جال سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن زیادہ تر نے کالے نقاب کیے ہوئے تھے۔ بہت سی خواتین نے کالے دستانے بھی پہنے تھے۔
طالبان کے پہلے دور حکومت 1996 سے 2001 کے دوران افغان خواتین کے حقوق کافی حد تک محدود ہو گئے تھے لیکن گذشتہ ماہ دوبارہ سے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ وہ نسبتاً کم سخت گیر حکمرانی نافذ کریں گے۔
طالبان کے محکمہ تعلیم نے کہا ہے کہ اس مرتبہ خواتین کو یونیورسٹی جانے کی اجازت ہوگی اور صنفی بنیاد پر کلاسز علیحدہ ہوں گی اور یا کم از کم درمیان میں پردہ ڈال کر کلاس میں لڑکوں اور لڑکیوں کو علیحدہ رکھا جائے گا۔ لڑکیاں ضرور عبایا یا نقاب پہنیں گی۔

طالبان کے حق میں مظاہرے کی اجازت

منتظمین کے مطابق ان خواتین نے شہید ربانی ایجوکیشن یونیورسٹی کابل میں تقریریں سنیں۔
اس موقع پر خواتین مقررین نے ان خواتین مظاہرین پر تنقید کی جنہوں نے حالیہ دنوں میں مظاہرے کیے تھے۔
انہوں نے اسلامی امارات افغانستان کے نئے حکومت کا دفاع کیا، جس نے حال ہی میں مظاہروں پر پابندی عائد کی ہے۔

ان خواتین کے طالبان کی حمایت میں تقاریر کیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اسلامی امارت نے کہا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے لیے وزارت انصاف سے اجازت لینا ہوگی۔
وزارت تعلیم میں خارجہ امور کے ڈائریکٹر داؤد حقانی نے کہا کہ اس مظاہرے کا انتظام خواتین کی جانب سے کیا گیا، جنہوں نے مظاہرے کے لیے درخواست دی تھی اور ان کو مظاہرے کی اجازت دی گئی تھی۔

’آزادی نہیں‘

پہلی خاتون سپیکر نے کہا ہے کہ ’ہم ان خواتین کے خلاف ہیں جو سڑکوں پر مظاہرے کر رہی ہیں اور دعویٰ کر رہی ہیں کہ وہ خواتین کی نمائندہ ہیں۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا ’کیا یہ آزادی ہے کہ سابق حکومت کو پسند کیا جائے؟ نہیں، یہ آزادی نہیں ہے۔ پچھلی حکومت خواتین کا غلط استعمال کر رہی تھی۔ وہ خواتین کو صرف ان کی خوبصورتی کی وجہ سے بھرتی کر رہے تھے۔‘
تھیٹر میں بیٹھی کچھ خواتین کے پاس بچے بھی تھے، جو کبھی کبھی تقریروں کے دوران روتے تھے جبکہ ان میں نوجوان لڑکیاں بھی تھیں جن کی عمریں واضح طور پر یونیورسٹی کی طالبات کی نہیں تھیں۔
ایک طالبہ شبانہ عمری نے خواتین سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ طالبان کی اس پالیسی سے متفق ہیں کہ خواتین سر ڈھانپیں۔
’وہ جو حجاب نہیں لیتی وہ ہم سب کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔‘ ’حجاب ایک انفرادی چیز نہیں ہے۔‘
شبانہ عمری نے اپنے تقریر کا اختتام ’اللہ اکبر‘ پر کیا۔
ایک اور سپیکر سمعیہ نے کہا کہ طالبان کی واپسی کے بعد تاریخ بدل گئی ہے۔ ’اس کے بعد ہم بے حجابی نہیں دیکھیں گے۔‘

کچھ خواتین کے ساتھ بچے بھی موجود تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’خواتین اس کے بعد محفوظ ہوں گی۔ ہم اپنی پوری قوت کے ساتھ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔‘
تقاریر کے بعد خواتین سڑکوں پر بھی نکلیں۔ یہ عوامی مظاہرہ کابل اور دیگر علاقوں کے مناظر کے بالکل برعکس تھا جب طالبان جنگجوؤں نے اپنے حکومت کے خلاف مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جس میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
سنیچر کے مظاہرے میں ایک بینر پر لکھا ہوا تھا کہ ’جن خواتین نے افغانستان کو چھوڑا وہ ہماری نمائندگی نہیں کر سکتیں۔‘
ایک اور پر لکھا تھا کہ ’ہم مجاہدین کے رویے اور سلوک سے مطمئن ہیں۔‘
ایسے وقت میں جب آدھی آبادی کام اور تعلیم سے الگ ہے تو طالبان کا کہنا ہے کہ وہ سابقہ سخت پالیسیوں سے خود کو دور رکھنا چاہتے ہیں۔
نئے قواعد و ضوابط کے تحت خواتین ’اسلام کے اصولوں کے مطابق‘ کام کر سکتی ہیں تاہم ابھی تک اس کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔

شیئر: