Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان پولیس نے کابل ایئرپورٹ پر کام شروع کر دیا، طالبات کو تعلیم کی مشروط اجازت

طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد افغان پولیس نے پہلی بار طالبان کی سکیورٹی کے ساتھ چیکنگ پوائنٹس پر کام شروع کیا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے کہا ہے کہ خواتین یونیورسٹیوں تک اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہیں لیکن اس کے لیے علیحدہ کلاس رومز اور اسلامی لباس پہننا لازمی ہوگا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جب گزشتہ ماہ طالبان حکومت کا تختہ الٹ کر کابل میں داخل ہوئے تھے تو پولیس نے اپنی چوکیاں چھوڑ دی تھیں۔
لیکن دو افسران نے بتایا کہ وہ طالبان کمانڈروں کی کال موصول ہونے کے بعد ہفتے کو کام پر واپس آ گئے تھے۔
اتوار کے روز کابل ایئرپورٹ پر اے ایف پی کے ایک نمائندے نے دیکھا کہ سرحدی پولیس کے اہلکاروں کو ایئرپورٹ کی اہم عمارتوں کے باہر کئی چوکیوں پر تعینات کیا گیا جن میں ڈومیسٹک ٹرمینل کی چوکی بھی شامل ہے۔
پولیس فورس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں گھر بھیجے جانے کے دو ہفتوں سے زائد عرصے بعد کل کام پر واپس آیا تھا۔‘
ایک اور افسر نے بتایا کہ مجھے ایک سینیئر طالبان کمانڈر کا فون آیا جس نے مجھ سے واپس آنے کو کہا۔
’کل کا دن بہت اچھا تھا ، دوبارہ سروس شروع کرنے پر میں بہت خوش ہوں۔‘
طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے فوج، پولیس اور سکیورٹی کے دیگر شعبوں سمیت سابق ​​حکومت کے لیے کام کرنے والے ہر فرد کو عام معافی دی ہے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نےسابق ​​حکومت کے لیے کام کرنے والے ہر فرد کو عام معافی دی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مخالف رہنے والی فورسز کو ضم کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ کیسے ہو گا۔ یا وہ لگ بھگ 6 لاکھ افراد پر مشتمل سکیورٹی اپریٹس کو کیسے برقرار رکھیں گے۔
ایئرپورٹ پر خواتین سٹاف کی واپسی
طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد رابعہ جمال نے ایئرپورٹ پر دوبارہ کام کرنے کا مشکل فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے اپنی فیملی کی گزر بسر کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ مجھے گھر پر ٹینشن ہو رہی تھی۔ مجھے بہت برا محسوس ہوتا تھا۔ اب میں بہتر محسوس کر رہی ہوں۔‘
 





کابل ایئرپورٹ پر کام کرنے والی 80 خواتین میں سے 12 واپس آئی ہیں، لیکن یہ بہت تھوڑی خواتین ہیں جن کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سنیچر کو چھ خواتین مرکزی داخلے پر کھڑی گپ شپ لگا رہی تھیں اور اندرون ملک سفر کے لیے آنے والی خواتین کی سکیننگ اور تلاشی کے لیے انتظار کر رہی تھیں۔
خیال رہے کہ طالبان جو 15 اگست کو حکومتی افواج کو شکست دینے کے بعد کابل میں داخل ہو گئے تھے، وہ کابل ایئرپورٹ کو قطر کی تکنیکی معاونت سے دوبارہ چلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے افغانستان کو امداد پہنچانے کے لیے ایک ایئر برج قائم کیا ہے جس میں طیارے سیکڑوں ٹن طبی اور خوراک کا سامان لے کر آئے ہیں۔
ایئرپورٹ کے ایک ملازم جو ایک نجی کمپنی کی سیکورٹی سنبھالتے ہیں، نے تصدیق کی کہ سرحدی پولیس ہفتے کے روز سے ائیرپورٹ کے ارد گرد تعینات تھی۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’وہ طالبان کے ساتھ مل کر سکیورٹی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔‘
قطر ایئرویز نے حالیہ دنوں میں کابل سے چارٹر پروازیں چلائی ہیں جن میں زیادہ تر غیرملکی اور افغان ہیں جو انخلا کے دوران پیچھے رہ گئے تھے۔

طالبان  نے کہا ہے کہ خواتین یونیورسٹیوں تک اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ایک افغان ایئرلائن نے گذشتہ ہفتے ڈومیسٹک پروازیں دوبارہ شروع کیں جبکہ آئندہ دنوں میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی اسلام آباد سے پروازوں کا آغاز متوقع ہے۔
خواتین علیحدہ کلاسز اور اسلامی لباس میں تعلیم حاصل کر سکتی ہیں: طالبان 
دوسری جانب افغان طالبان  نے کہا ہے کہ خواتین یونیورسٹیوں تک اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہیں لیکن اس کے لیے علیحدہ کلاس رومز اور اسلامی لباس پہننا لازمی ہوگا۔
طالبان حکومت کے وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے اتوار کو ایک نیوز کانفرنس میں نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا۔
عبدالباقی حقانی نے کہا کہ طالبان وقت کو 20 سال پیچھے نہیں لے جانا چاہتے اور یہ کہ ’ہم آج کے دور میں موجود چیزوں کی تعمیر شروع کریں گے۔
تاہم طالبات کو طالبان کی ان نئی پالیسیوں کے تحت لازمی ڈریس کوڈ سمیت دیگر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ وزیر تعلیم کا مزید کہنا تھا کہ طالبات کے لیے حجاب لازمی ہوگا لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس کا مطلب سر پر سکارف ہے یا پورے چہرے کا پردہ۔

شیئر: