Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اطلاعات تک رسائی کا قانون بن گیا مگر عمل درآمد میں رکاوٹ کیوں؟

حکومت نے تحائف کی تفصیلات عام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ (فوٹو: کابینہ ڈویژن)
حکومت کی جانب سے موجودہ دور میں سرکاری توشہ خانے کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات عام نہ کرنے کے فیصلے کے بعد یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اطلاعات تک رسائی کے قانون کو بنے کئی سال گزر چکے ہیں مگر عمل درآمد میں رکاوٹیں کیوں ختم نہیں ہو رہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ دنوں اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت ایک شہری نے تحریک انصاف کی حکومت میں ملنے والے تحائف کی تفصیلات عام کرنے سے متعلق درخواست دی تو حکومت نے معلومات دینے سے انکار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ یہ معلومات ’حساس‘ اور ’قومی مفاد‘ سے متعلق ہیں۔
شہری نے اس پر پاکستان انفارمیشن کمیشن(پی آئی سی) میں اپیل کی جس نے درخواست منظور کرتے ہوئے حکومت کو تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی مگر حکومت نے کمیشن کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
اس سے قبل بھی اطلاعات تک رسائی کے قانون 2017 کے اجرا کے بعد سے اب تک متعدد بار حکومتی ادارے اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ٹھہرے ہیں حالانکہ قانون کے مطابق ہر وفاقی ادارہ عوام کو اطلاعات فراہم کرنے کا پابند ہے۔
صرف ان امور پر اطلاعات کی فراہمی نہیں کی جا سکتی جو آئین کے آرٹیکل انیس میں درج ہیں جیسا کہ وہ معلومات جن سے قومی سلامتی، غیر ممالک سے دوستانہ تعلقات، امن عامہ یا عدالت کی عزت یا آزادی متاثر ہوتی ہو۔
اس حوالے سے کمیشن کو اختیار ہے کہ فیصلہ کرے کہ کونسی معلومات اس دائرے میں آتی ہیں۔ تاہم کمیشن کے احکامات کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

تین سالوں میں محکموں کے خلاف 1500 شکایات

معلومات کی رسائی کے عالمی دن کے موقع پر اردو نیوز نے کمیشن کے سربراہ یعنی چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’گزشتہ تین سالوں میں کمیشن کو عوام کی جانب سے 1500 سے زائد شکایات موصول ہوئیں کہ حکومتی محکمے قانون کے مطابق درکار معلومات فراہم نہیں کر رہے۔‘

عوام کو اطلاعات نہ فراہم کرنے پر جرمانہ اور قید ہو سکتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ معلومات تک رسائی عوام کا حق ہے اس لیے کمیشن نے ان شکایات پر ایکشن لیتے ہوئے 700 سے زائد شکایات کا ازالہ کر دیا ہے۔
تاہم چیف انفارمیشن کمشنر نے بتایا کہ ’کمیشن کو اپنا کام کرنے میں ابھی بھی شدید دشواریوں کا سامنا ہے اور اسے اپنے قیام کے بعد دفتر کے حصول کے لیے دو سال لگ گئے جبکہ منظور شدہ تیس رکنی سٹاف میں سے اب تک صرف تیرہ دستیاب ہو سکیں۔‘
چیف انفارمیشن کمیشنر محمد اعظم کے مطابق کمیشن کو ٹرانسپورٹ کی مد میں اب تک صرف ایک موٹر سائیکل فراہم کیا گیا ہے جبکہ سرکاری کاموں کے لیے کمشنر اپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

اطلاعات کے قانون سے کیسے تبدیلی کا آغاز ہو رہا ہے؟

ان تمام مشکلات کے باجود اطلاعات تک رسائی کے قانون نے معاشرے میں تبدیلی کی راہ ہموار کر دی ہے۔ محمد اعظم کے مطابق اب تک سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اس قانون کے تحت فراہم کردہ معلومات کے نتیجے میں ملک بھر میں صفائی کا کام کرنے والے ہزاروں خاکروبوں کی تنخواہیں 12 ہزار روپے سے بڑھا کر 22 ہزار 500 کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
’سب سے غریب طبقے کی زندگیوں میں اتنی بڑی تبدیلی اس قانون کی افادیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کمیشن تمام تر وسائل کی کمی کے باجود پرعزم ہے کہ ملک کے ہر ادارے کو عوام کے سامنے جواب دہ بنایا جائے گا اور عوام تک اطلاعات کی رسائی یقینی بنائی جائے گی۔ اس سلسلے میں قانون پر عمل نہ کرنے والوں پر جرمانے کیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ قانون کے تحت اطلاعات فراہم نہ کرنے والے افراد اور اداروں کو ایک لاکھ روپے تک جرمانہ اور سو دن تک کی تنخواہ ضبط کی جا سکتی ہے جبکہ ریکارڈ میں ردو بدل کرنے والے افراد کو دو سال تک قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

اطلاعات تک رسائی کا قانون 2017 میں نافذ ہوا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

اس سے قبل پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ایک فیصلہ دیتے ہوئے 20 سال پرانی تمام سرکاری رپورٹوں کو عوامی ریکارڈ قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ اس فیصلے میں پاکستان انفارمیشن کمیشن نے واضح کیا کہ کونسا ریکارڈ کلاسیفائیڈ ہے اور کونسا نان کلاسیفائیڈ۔ 
اطلاعات تک رسائی کے عالمی دن کے موقع پر ایک غیر سرکاری ادارے سسٹین ایبل سوشل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن ( ایس ایس ڈی او) نے ایک رپورٹ بھی جاری کی جس میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومتی اداروں نے معلومات کی فراہمی شروع کر دی ہے البتہ یہ عمل تکلیف دہ حد تک سست روی کا شکار ہے۔ رپورٹ میں 22 وفاقی سرکاری اداروں کی معلومات کی فراہمی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
اس رپورٹ میں ایس ایس ڈی او نے آگاہ کیا کہ معلومات تک رسائی کے حق کا ایکٹ 2017 کی شق 5 کے تحت تمام وفاقی ادارے اہم معلومات اپنی ویب سائیٹ پر فراہم کرنے کے قانونی طور پر پابند ہیں۔
اس طرح کی معلومات کی فراہمی سے حکومتی معاملات میں عوامی شمولیت بڑھے گی اور اس سے بھرتی اور خریداریوں کی شفافیت میں اضافہ ہوگا۔ خاص طور پر حکومتی رعایتوں، منظوریوں، الاٹمنٹس، معاہدوں اور لائسنسوں کی فراہمی کی تفصیلات شہریوں کو میسر ہوں گی اور وہ ان معاملات کی تمام تفصیلات سے آگاہی حاصل کر سکیں گے۔

شیئر: