Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا میں ہائپرسانک میزائل بنانے کی دوڑ کیوں شروع ہو گئی ہے؟

روس، چین، امریکہ اور اب شمالی کوریا، یہ ملک ہائپرسانک میزائلوں کے تجربے کر چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
شمالی کوریا نے گزشتہ ہفتے ہائپرسانک میزائل کا تجربہ کیا جس کے بعد اس ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ اس میزائل ٹیکنالوجی کا توڑ مشکل نظر آتا ہے جس کی وجہ سے ایٹمی ٹیکنالوجی کے باعث پیدا عالمی توازن بگڑ سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روس نے کہا ہے کہ اس نے پیر کو پہلی بار زیرسمندر آبدوز سے ہائپرسانک میزائل کا تجربہ کیا۔
روس تاحال اس ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے جس کے بعد چین اور امریکہ ہیں۔ کم از کم دنیا کے پانچ دیگر ممالک بھی اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔

ہائپرسانک ٹیکنالوجی کا حصول کیوں؟

روایتی بیلسٹک میزائلوں کی طرح جو ایٹمی ہتھیار بھی لے جا سکتے ہیں، ہائپرسانک میزائل بھی کام کرتے ہیں تاہم ان کی رفتار پانچ گنا زیادہ ہے۔
بیلسٹک میزائل فائر کیے جانے کے بعد فضا میں بلند ہوتا ہے اور اس کے بعد ہدف کی جانب نیچے آتا ہے جبکہ ہائپرسانک نچلی پرواز کرتا ہوا اپنے ہدف کی جانب بڑھتا ہے اور زیادہ تیزی سے اس کو نشانہ بناتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کی اہم چیز یہ ہے کہ میزائل کی رفتار میں تبدیلیاں بھی کی جا سکتی ہیں اور اس کو سب سانک کروز میزائل کی طرح آہستہ پرواز کرتے ہوئے بھی ہدف پر داغا جا سکتا ہے جس کے باعث اس کا توڑ یا اس کے خلاف دفاع مشکل ہو جاتا ہے۔
امریکہ جیسے ملکوں نے کروز اور بیلسٹک میزائلوں کے خلاف دفاعی نظام بنایا ہے تاہم ہائپرسانک میزائل کا پتا لگانا اور پھر اس کے حملے کو ناکام بنانا ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔
ہائپرسانک میزائلوں کے ذریعے روایتی ہتھیاروں کو اپنے ہدف پر نشانہ لگانے کے لیے بھیجا جا سکتا ہے اور دیگر میزائلوں کے مقابلے میں یہ زیادہ تیزی اور درست نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان میزائلوں کے ذریعے ایٹمی ہتھیاروں کو ہدف پر نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرنا ہی اس وقت وہ خطرہ ہے جس نے سب کو پریشان کر رکھا ہے کیونکہ اس طرح دنیا میں ایٹمی جنگ کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع نے اگلے پانچ برس میں ہائپرسانک کے 40 تجربات کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کیا ہائپرسانک کا خطرہ فوری ہے؟

روس، چین، امریکہ اور اب شمالی کوریا، یہ ملک ہائپرسانک میزائلوں کے تجربے کر چکے ہیں۔
فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان ہائپرسانک ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔
امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایران، اسرائیل اور جنوبی کوریا بھی اس ٹیکنالوجی پر بنیادی کام مکمل کر چکے ہیں۔ 
روس اس وقت اس ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ ترقی کر چکا ہے اور ماسکو نے پیر کو اعلان کیا کہ ان کی ایٹمی آبدوز نے دو زرکون ہائپرسانک میزائل داغنے کا تجربہ کیا۔
پہلا تجربہ آبدوز کے پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے کیا گیا جس نے کامیابی سے سمندر میں اپنے ہدف کو نشانہ بنایا جبکہ دوسرا تجربہ آبدوز نے پانی کے اندر 40 میٹر گہرائی میں رہتے ہوئے کیا۔
امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کی رپورٹ کے مطابق چین اس ٹیکنالوجی پر برق رفتاری سے کام کر رہا ہے تاکہ امریکہ کے ہائپرسانک کے مقابلے میں آ سکے۔
رپورٹ کے مطابق چین اور روس نے اس حوالے سے ’آپریشنل صلاحتیں‘ میدان میں یکجا کی ہیں۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق امریکہ ہائپرسانک ٹیکنالوجی پر سرگرمی سے کام کر رہا ہے اور محکمہ دفاع نے اگلے پانچ برس میں اس کے 40 تجربات کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ 
پینٹاگون نے گزشتہ ہفتے ہائپرسانک میزائل کے تجربے کے بعد بیان میں کہا تھا کہ ’ہائپرسانک کروز میزائل کے کامیاب تجربے سے یہ ہمارے جنگی جہازوں کے لیے ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہوگا۔’
شمالی کوریا نے اپنے میزائل تجربے کے بعد کہا تھا کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو مزید آگے لے جائیں گے اور تجربے کا فوکس میزائل کی اڑان کے دوران خصوصیات تبدیل کرنے پر تھا۔

شیئر: