Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماحولیاتی تبدیلی: ترقی یافتہ ممالک طے شدہ فنڈز دینے میں اب تک ناکام

ترقی پذیر ممالک کے لیے 2020 تک ہر سال 100 ارب ڈالر جمع کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ فائل فوٹو: ان سپلیش
ترقی پذیر ممالک کو کاربن کی آلودگی کم کرنے اور ماحول کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کا متبادل فراہم کرنے کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امیر ممالک نے ابھی تک یہ وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ  اس ناکامی کے وجہ سے ممکن ہے کہ اگلے مہینے گلاسگو میں ماحولیات سے متعلق اجلاس میں اس پر تناؤ سامنے آئے۔
ترقی پذیر ممالک کے لیے 2020 تک ہر سال 100 ارب ڈالر جمع کرنے کا وعدہ پہلی بار 2009 میں کوپن ہیگن میں اقوام متحدہ کے ماحولیات سے متعلق اجلاس میں کیا گیا تھا۔
ماحولیات کے مالی معاملات دیکھنے کی ذمہ داری اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم نے لی تھی۔
اس تنظیم کے مطابق ایک دہائی بعد امیر ممالک پھر بھی سالانہ 100 ارب ڈالر کے ہدف سے کافی دور تھے کیونکہ 2019 میں ان کے پاس کُل ملا کر 80 ارب ڈالر سے بھی کم رقم تھی۔
رقم کے معاملات دیکھنے والی این جی اوز کے مطابق اگر اس مقصد کے لیے دی گئیں گرانٹس کی مالیت دیکھیں اور قرض کی نہیں، تو کُل رقم نصف سے بھی کم ہو جاتی ہے۔
امریکی حکموت نے اپنی امدادی رقم کو دگنا کر کے 2024 تک ہر سال 11.4 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم اس رقم سے بھی خلا پُر ہونا ممکن نہیں ہوگا۔
کینیڈا اور جرمنی سے بھی متوقع ہے کہ وہ 31 اکتوبر کو شروع ہونے والے گلاسگو اجلاس سے قبل بہتر وعدے کریں گے۔

امریکی حکموت نے اپنی امدادی رقم کو دگنا کرکے 2024 تک ہر سال 11.4 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔  فائل فوٹو: ان سپلیش

آج کے دور میں چین دنیا کے ان ممالک میں اول نمبر پر ہے جہاں کاربن کی وجہ سے سب سے زیادہ آلودگی ہوتی ہے اور اس طرح یہ ملک عالمی سطح پر ہونے والے کاربن اخراج میں ایک چوتھائی حصے کا ذمہ دار ہے۔
تاہم امریکہ اور دیگر امیر ممالک کاربن ڈائی آکسائڈ جیسی خطرناک گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے ملکوں میں شامل ہیں۔
گلاسگو میں ہونے والے اجلاس کاپ 26 کے میزبان برطانوی بورس جانسن نے اقوام متحدہ میں سربراہان کو یاد دہائی کروائی تھی کہ برطانیہ نے صنعتی انقلاب کا آغاز کیا تھا اور پہلا ملک تھا جس نے ماحول میں اتنا دھواں چھوڑا تھا کہ قدرتی نظام متاثر ہوا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ جب ترقی پذیر ممالک ہماری طرف مدد کے لیے دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوتی ہیں۔‘

شیئر: