Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا میں پیٹ کے کیڑوں کی دوا سے سینکڑوں بچوں کی حالت کیوں بگڑی؟

ماہرین صحت کے مطابق پیٹ کی کیڑوں کی وجہ سے بہت سے بچوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔(فوٹو: پِکسا بے)
خیبر پختونخوا کے 22 اضلاع کے سکولوں میں 72  لاکھ بچوں کے پیٹ کے کیڑوں کے خاتمے کے لیے پانچ روزہ مہم کا اغاز ہو چکا ہے لیکن مہم کے پہلے ہی دن مختلف اضلاع میں پیٹ کے کیڑے مارنے کی دوا کھانے سے 100 سے زائد بچوں کی حالت بگڑ گئی جس کی وجہ سے ان کو ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کردہ سروے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 70 لاکھ سکول جانے والے بچے پیٹ کے کیڑوں کا شکار ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق پیٹ کی کیڑوں کی وجہ سے بہت سے بچوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت، تعلیم اور بلدیات کے اشتراک سے رواں ماہ (18 اکتوبر سے 22 اکتوبر تک) پشاور، مردان، مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے 22 اضلاع کے سکولوں میں 70 لاکھ سے زائد بچوں کے پیٹ کے کیڑوں کے خاتمے کے لیے پانچ روزہ مہم کا اغاز ہو چکا ہے۔
ان اضلاع کے سکولوں، پبلک مقامات اور دینی مدارس میں محکمہ صحت کا عملہ 5 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو پیٹ کے کیڑوں سے بچاؤ کی دوا کھلائے  گی تاکہ بچوں کو خون کی کمی، ذہنی نشوونما میں مسائل اور پیٹ کے دیگر موذی امراض سے بچایا جا سکے۔
 مہم کے پہلے ہی دن ضلع خیبر کے علاقے لنڈی کوتل کے گورنمنٹ مڈل سکول گاگرہ اور گورنمنٹ ہائی سکول محمد خان کلی میں پیٹ کے کیڑوں کے خاتمے کی دوا کھانے سے 56 طلبہ کی حالت بگڑ گئی اور انہیں قے کی شکایت ہونے لگی۔ دوا سے متاثر ہونے والے طلبہ کو بروقت ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لنڈی کوتل پہنچا کر ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی تھی۔
 اسی طرح ضلع باجوڑ کی تحصیل خار میں بھی ایک پرائمری سکول کے40  بچوں کی پیٹ کے کیڑے مارنے کی دوا کھانے سے طبعیت خراب ہونے لگی اور انہیں قے ہونا شروع ہو گئی جس کی وجہ سے والدین اور بچے تشویش میں مبتلا ہیں۔
 اس حوالے ڈسٹرکٹ ہسپتال لنڈی کوتل کے ایم ایس نیاز آفریدی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ڈی وارمنگ کے لیے دوائی کھانے سے اکثر ایسے واقعات سامنے آتے ہیں لیکن یہ اتنے نقصان دہ نہیں ہوتے، اس کی وجہ سے اکثر بچے ڈر جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی حالت بگڑ جاتی ہے لیکن یہ عام سی بات ہے۔ اس کے اتنے بڑے نقصانات نہیں ہوتے۔

ڈی وارمنگ کتنے عرصے بعد اور کیوں ضروری ہے؟

ایل ار ایچ چلڈرن وارڈ کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد امیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں لوگوں کے پیٹ کی کیڑوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے انہیں کئی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں جن میں سب سے عام خون اور آئرن کی کمی ہے۔‘
 انہوں نے بتایا کہ ’حکومت کا یہ بہت اچھا اقدام ہے لیکن پیٹ کے کیڑوں کی بہت سی اقسام ہیں اور پہاڑی علاقوں میں زیادہ تر بچوں میں تین قسم کے کیڑے پائے جاتے ہے۔‘
’حکومت کی طرف سے دی جانے والی دوائی ایبینڈازول 500 mg سے وہ کیڑے نہیں مرتے۔ انہیں چاہئیے تھا کہ اس مہم کے شروع کرنے سے پہلے وہ مختلف جگہوں پر سروے کرتے اور معلوم کرتے کہ کون سی جگہ پر پچوں کے پیٹ میں کون سے کیڑے پائے جاتے ہیں کیونکہ اس دوائی سے صرف بعض قسم کے کیڑے مرتے ہیں جب کہ بہت سے ایسے بھی کیڑے ہیں جو اس دوا کے کھانے سے ختم نہیں ہوتے۔‘
پیٹ کے کیڑے مارنے کی دوا کھانے سے بچوں کی حالت خراب ہونے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’اس دوا کے کھانے کے اس قدر خطرناک اثرات نہیں ہوتے لیکن اس کے کچھ نہ کچھ اثرات ان بچوں پر ہو سکتے ہیں جو پہلے سے کسی اور بیماری مبتلا ہوں یا کوئی اور دوائی استعمال کرتے ہوں۔‘
’حکومت کو چاہیے کہ یہ کام تربیت یافتہ عملے سے کرائے اور جہاں بھی بچوں کو یہ دوائی کھلائی جاتی ہے، وہاں سب سے پہلے بچوں کی سکریننگ کرنی چاہیے تاکہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں کیونکہ اس طرح کے واقعات سے لوگون میں تشویش بڑھ سکتی ہیں۔‘

پیٹ کے کیڑوں سے بچے کن بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں؟

اس حوالے سے امیر محمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگر بچے کے پیٹ میں کیڑے ہوں تو ان کو آئرن کی کمی کی بیماری انیمیا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو آنتوں کی رکاوٹ، پتے کی سوجن اور بالخصوص خواتین کو پتھری کی بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔‘
پیٹ میں کیڑوں کی وجہ سے دائمی اسہال کے علاوہ بہت سے بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں جن سے بچنے کے لیے ہر چھ ماہ بعد پیٹ کے کیڑے مارنے کی دوا کھانی چاہیے۔
ڈی وارمنگ کی یہ مہم پورے پاکستان میں اگست سے شروع ہو چکی ہیں جس میں تقریباً 15  لاکھ سکول کے بچوں کو کیڑے مار دوائی کھلائی جائے گی تاکہ انہیں بیماریوں سے بچایا جا سکے۔

شیئر: