Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کے نئے وزیرِاعلیٰ کے لیے عبدالقدوس بزنجو کی پوزیشن مضبوط

تحریک انصاف کی مرکزی قیادت، اور سابق اتحادی جماعتوں نے بھی عبدالقدوس بزنجو کی حمایت کر دی ہے۔(فوٹو: ٹوئٹر)
بلوچستان میں نئے وزیراعلیٰ کے لیے عبدالقدوس بزنجو کی پوزیشن مزید مضبوط ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت، جام کمال کے حامی کئی ارکان اور سابق اتحادی جماعتوں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، جمہوری وطن پارٹی نے بھی عبدالقدوس بزنجو کی حمایت کر دی ہے۔
جام کمال کے استعفے کے بعد خالی ہونے والی وزارت اعلیٰ کی نشست کے لیے دوڑ میں تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند بھی شامل ہیں تاہم انہیں اپنی ہی جماعت کی مرکزی قیادت نے نظر انداز کر دیا ہے۔
منگل کی رات کو کوئٹہ کے نجی ہوٹل میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما وزیر دفاع پرویز خٹک اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم قام صدر ظہور احمد بلیدی اور عبدالقدوس بزنجو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وزارت اعلیٰ کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کی۔
پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی اسی اتحاد کے ساتھ کھڑی تھی، کھڑی رہے گی ۔ یہ عمران خان اورہم سب کا متفقہ فیصلہ ہے۔‘
اس سے قبل پریس کانفرنس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر ظہور احمد بلیدی نے اعلان کیا کہ پارٹی اجلاس میں قائد ایوان کے لیے عبدالقدوس بزنجو کا نام فائنل کر دیا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو جلد کابینہ تشکیل دیں گے جس کے بعد بلوچستان میں اس بحران کا مکمل خاتمہ ہو گا۔
تحریک انصاف کے بلوچستان اسمبلی میں سات ارکان ہیں۔ دو روز قبل پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو وزارت اعلیٰ اور ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کو سپیکر کے عہدے کے لیے امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔
تاہم سات ارکان اسمبلی میں سے بظاہر چار سے پانچ ارکان ہی سردار یار محمد رند کے حمایتی ہیں۔ نصیب اللہ مری شروع سے ہی عبدالقدوس بزنجو کے کیمپ کا حصہ ہیں۔ بدھ کو ایک اور رکن مبین خلجی نے بھی بی اے پی کی حمایت کر دی ہے۔
پی ٹی آئی کے ترجمان بابر یوسف زئی نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان نے سردار یار محمد رند کو بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ ہم جام کمال اور ان کی حکومت میں شامل جماعتوں اے این پی، ایچ ڈی پی اورجمہوری وطن پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
تاہم اسلام آباد سے آنے والے تحریک انصاف کے دونوں مرکزی رہنماؤں نے سردار یار محمد رند کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ ان سے کوئی ملاقات بھی نہیں کی اور وزارت اعلیٰ کے لئے بی اے پی کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں ایک اجلاس کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمعیت علماء اسلام بلوچستان کی نئی حکومت میں شامل نہیں ہو گی۔
یاد رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کے 11 اور سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے 10 ارکان اسمبلی ہیں۔ دونوں جماعتیں اگرچہ حزب اختلاف کا حصہ ہیں تاہم انہوں نے جام کمال کے خلاف عبدالقدوس بزنجو کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی نے نئی حکومت میں شامل ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ابھی تک کسی فیصلے کا اعلان نہیں کیا۔
جام حکومت میں شامل ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی بھی اپنا موقف بدلتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو کے کیمپ میں چلی گئی ہیں اور ان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ سابق اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی جام کمال کی حمایتی تھی۔
بی اے پی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعیت علماء اسلام نے اے این پی کی نئی حکومت میں شمولیت کی  مخالفت کی ہے۔
بدھ کی رات کو پریس کانفرنس میں اے این پی کو حکومت میں شامل کرنے سے متعلق عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ بلوچستان بہت بڑا صوبہ ہے۔ مسائل بہت زیادہ ہیں، ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ پہلی دفعہ ہو گا کہ آپ کو پورے ایوان کا متفقہ امیدوار ملے گا۔
اس موقع پر چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ ’بلوچستان میں سیاسی بحران تھا جو الحمداللہ آج حل ہو گیا ہے۔ حل اس طرح ہوا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے کچھ ساتھی ایک طرف اور کچھ دوسری طرف تھے، سب ایک ساتھ بیٹھے۔ انہوں نے اپنی رنجشیں اور ناراضی کو دور کیا اور کچھ فیصلے کیے۔‘
صادق سنجرانی کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پرویز خٹک آئے تھے۔ انہوں نے کردار ادا کیا۔ جام کمال خان نے بھی کردار ادا کیا۔ انہوں نے بھی ساتھیوں کو کہا کہ دوبارہ اکٹھے ہو کر پارٹی کو بچائیں جس پر ہم ان کے بھی شکر گزار ہیں۔ وہ ہمارے لیے قابل احترام تھے اور رہیں گے۔ ‘
دوسری جانب بی اے پی کے رکن بلوچستان اسمبلی ضیاء اللہ لانگو، ربابہ بلیدی سمیت جام کمال کے حامیوں میں شامل کئی دیگر ارکان اسمبلی نے بھی عبدالقدوس بزنجو کی حمایت کر دی ہے۔
ضیاء اللہ لانگو نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے تمام 24 ارکان اسمبلی (بشمول جام کمال ) نے قائد ایوان کے لیے عبدالقدوس بزنجو اورجان محمد جمالی کو سپیکر کے لیے امیدوار نامزد کر دیا ہے۔
تاہم پریس کانفرنس میں چیئرمین سینٹ سے پوچھا گیا کہ بی اے پی کے باقی (جام کے حامی )ممبران کیوں پریس کانفرنس میں موجود نہیں تو انہوں نے کہا کہ ’باقی ارکان اجلاس کے بعد چلے گئے، ہم نے صبح جلدی جانا تھا۔ اس لیے رات گئے پریس کانفرنس بلائی۔‘
عبدالقدوس بزنجو نے اس موقع پر کہا کہ جب ہم نکلے تھے تو خدشہ تھا کہ پارٹی کہیں پر خراب نہ ہو جائے، خوشی اس بات کی ہے کہ معاملات حل ہو گئے۔ وزیراعظم، چیئرمین سینٹ، پرویز خٹک، قاسم سوری سب نے اچھا کردار ادا کیا ۔ جام صاحب کے مشکور بھی ہیں انہوں نے استعفیٰ دیا جس سے ہمارے بہت سارے مسائل حل ہوگئے اور دوبارہ ہم نے پارٹی کو ایک صفحے پر لے آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں بی اے پی کے تمام دوستوں کا مشکور ہوں، سب نے مشورے سے متفقہ فیصلہ میرے حق میں لیا۔ باقی اتحادیوں سے بھی مشاورت مکمل کر کے ایک دو دنوں میں اس مرحلے کو مکمل کریں گے۔‘
عبدالقدوس بزنجو نے جام کمال کے مستعفی ہونے کے بعد سپیکر بلوچستان اسمبلی کے عہدے سے استعفا دے دیا تھا تاہم ان کا استعفیٰ اب تک منظور نہیں ہوا۔ نئے قائد ایوان اور سپیکر کے انتخاب کے لیے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بھی اب تک نہیں بلایا جا سکا ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر ظہور احمد بلیدی کا کہنا ہے کہ اتحادی جماعتوں سے مشاورتی عمل مکمل ہونے کے بعد اسمبلی کا اجلاس بلایا کیا جائے گا۔
 

شیئر: