Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سائبر حملے: ڈیبٹ کارڈ اور اکاؤنٹ کو کیسے محفوظ بنایا جائے؟

سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ’صارفین کسی مشکوک میل یا میسج میں دیے گئے لنک پر کلک نہ کریں (فوٹو: اےا یف پی)
پچھلے ہفتے نیشنل بینک آف پاکستان نے بتایا کہ ان کے سسٹم پر سائبر حملہ ہوا تاہم ڈیٹا محفوظ رہا، البتہ انہی دنوں میں ملک کے دو معروف نجی بینکوں کے صارفین کی جانب سے ڈیبٹ کارڈ سے مشکوک ادائیگیوں کی شکایات سامنے آئیں، جس کے بعد متعدد حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ ڈیبٹ کارڈ اور اکاؤنٹ کو محفوظ کیسے رکھا جائے۔
متعدد صارفین کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ان کے اکاؤنٹ سے پچھلے ماہ کے دوران پانچ ہزار سے 50 ہزار کے قریب ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ جن میں سے بیشتر بین الاقوامی آوٹ لیٹس پر کی گئی تھیں۔
ایک صارف شعیب صدیقی نے بتایا کہ ان کی بیگم کے اکاؤنٹ سے چار آن لائن ٹرانزیکشنز کی گئیں اور بینک کو مطلع کیے جانے کے باوجود ابھی تک معاملہ حل نہیں ہوا۔
عمیر ملک نامی صارف کا کہنا ہے کہ انہیں بینک کی جانب سے موصول میسج سے اندازہ ہوا کہ تقریباً 32 ہزار کی انٹرنیشنل ٹرانزیکشن ہوئی ہے، جس کے بعد انہوں نے بینک سے رابطہ کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کارڈ پیمنٹ کے لیے او ٹی پی (ون ٹائم پاسورڈ) کی ضرورت پڑتی ہے جو موبائل نمبر پر آتا ہے، ایسا کیسے ممکن ہے کہ میرے موبائل پر میسج آئے بغیر پیمنٹ مکمل ہو گئی۔‘
نجی بینکس کی جانب سے اس حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا جا رہا۔ متعدد بار پوچھنے کے باوجود بھی بینکس کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب سے ڈیجیٹل سکیورٹی کی مہارت رکھنے والے افراد اس بارے میں صارفین کو کئی طریقے بتا رہے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی بینکنگ ٹرانزیکشن کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
بینکنگ کے حوالے سے قائم سوشل میڈیا گروپس میں متعدد صارفین کا پہلا مشورہ تو یہی آتا ہے کہ آن لائن پیمنٹس سے اجتناب کیا جائے تاکہ ڈیٹا چوری ہونے کی کوئی صورت ہی نہ بنے۔
نجی بینک سے منسلک سفیان احمد نے بتایا کہ ’آن لائن ادائیگیوں سے اجتناب مسئلے کا حل تو نہیں، البتہ اس حوالے سے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔‘

پچھلے ہفتے نیشنل بینک آف پاکستان نے بتایا کہ ان کے سسٹم پر سائبر حملہ ہوا تاہم ڈیٹا محفوظ رہا (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’صارفین گمنام ویب سائٹس اور غیر محفوظ پیمنٹ پورٹل کے ذریعے ادائیگیاں کر دیتے ہیں، جس سے ان کا نہایت اہم ڈیٹا کمپرومائز ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال کا شکار افراد کا آخر میں کہنا یہی ہوتا ہے کہ آن لائن ادائیگیاں غلط ہیں، لیکن دراصل یہ ویسا ہی ہے کہ جیسے آپ اصل زندگی میں کسی کو ادائیگی کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہیں، سوچتے ہیں کہ کیا واقعی اس دکان یا فرد پر بھروسہ کرنا چاہیے، ویسے ہی آن لائن ادائیگیوں کے وقت بھی احتیاط کرنی ہوتی ہے۔‘
نجی بینک کے سینیئر عہدیدار حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ ’مشکوک بینکنگ ٹرانزیکشن سے بچنے کے لیے سب موبائل ایپ سے آن لائن ٹرانزیکشن کا آپشن بند کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ڈیبٹ کارڈ کی موبائل ایپلیکیشن میں آپشن موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے آپ اپنے کارڈ سے آن لائن ٹرانزیکشن کو بند کر سکتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’جب آپ نے خود کوئی ٹرانزیکشن کرنی ہوں صرف تب ہی اس آپشن کو کھولیں، ورنہ بند رکھیں۔ ایسا کرنا مسئلے کا حل تو نہیں لیکن ذاتی طور پر ایک حفاظتی تدبیر ہے۔‘

دو معروف نجی بینکوں کے صارفین کی جانب سے ڈیبٹ کارڈ سے مشکوک ادائیگیوں کی شکایات سامنے آئیں (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز نے جب اس حوالے سے سٹیٹ بینک سے رابطہ کیا تو بینک کی جانب سے کچھ حفاظتی تدابیر کا بتایا گیا جن پر عمل کر کے صارف اپنا ڈیٹا محفوظ رکھ سکتے۔ ساتھ ہی یہ واضح کیا کہ ایسے کسی مسئلے کی صورت میں بینک 48 گھنٹے کے اندر صارفین کو جواب دینے کا پابند ہے اور 10 دن کے اندر معاملے پر عارضی جواب دینے اور 30 دن کے اندر معاملے کی مکمل تحقیقات کر کے مسئلہ حل کرنے کا پابند، جبکہ چھوٹی نوعیت کا معاملہ ہو تو سات دنوں کے اندر حل کرنے کے احکامات ہیں۔‘
’اس حوالے سے بینکنگ محتسب کا ادارہ قائم کیا گیا ہے، صارفین بینکنگ محتسب ویبسائٹ یا کسی بھی برانچ سے سے شکایت فارم لے کر اسے پُر کر کے محتسب کے دفتر ارسال کر سکتے ہیں۔ فی الحال آن لائن کمپلینٹ کا سسٹم رائج نہیں ہوا لیکن جلد ہی اس حوالے سے مثبت پیش رفت ہوگی۔‘
سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ’صارفین کسی مشکوک یا میل یا میسج میں فراہم لنک پر کلک نہ کریں، اور کسی صورت کال پر یا کسی اور کو اپنے کارڈ کی معلومات نہ دیں۔‘

’’صارفین گمنام ویب سائٹس اور غیر محفوظ پیمنٹ پورٹل کے ذریعے ادائیگیاں کر دیتے ہیں، جس سے ان کا ڈیٹا کمپرومائز ہو جاتا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

بینکوں کے مبینہ ڈیٹا لیک کے حوالے سے ترجمان سٹیٹ بینک کا موقف تھا کہ ’اس بارے  میں تحقیقات جاری ہیں اور بینکوں کو اپنے سسٹم میں بہتری لانے کے احکامات دیے گئے ہیں۔‘
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے ڈیبٹ کارڈ بنواتے وقت پیمنٹ گیٹ وے کا انتخاب بھی خاصا اہم ہے۔ عالمی طور پر مانے جانے والے ویزا اور ماسٹر کارڈ کے علاوہ اب پاکستانی بینک کچھ چائنیز گیٹ ویز کے کارڈ بھی جاری کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چائنیز گیٹ ویز اتنے محفوظ نہیں جتنے کہ ویزا اور ماسٹر کارڈ پیمنٹ گیٹ ویزہیں، لہٰذا صارفین کو احتیاط کرنا چاہیے کہ وہ کس پیمنٹ گیٹ وے کا کارڈ بنوا رہے ہیں۔

شیئر: