Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سٹیٹ بینک کو طاقتور بنانے کے نئے قانون سے عام آدمی متاثر ہوگا؟

وفاقی وزیر حماد اظہر کے مطابق ’مسودہ قانون اتنا بھی برا نہیں جتنا اسے پیش کیا جا رہا ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے حال ہی میں سٹیٹ بینک کے اختیارات میں اضافے کا مسودہ قانون منظور کیا ہے جسے منظوری کے لیے اب پارلیمنٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن کے علاوہ معاشی امور کے ماہرین بھی اس حکومتی مسودہ قانون پر شدید تنقید کر رہے ہیں اور اسے ملکی معیشت اور خود مختاری کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ قانون آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت لایا گیا ہے، اس لیے یہ ملک کے لیے مسائل کا سبب بن سکتا ہے اور عام انسان کی زندگی کو مزید مشکل بنا سکتا ہے۔
 نئے قانون سے سٹیٹ بینک میں کیا تبدیلیاں ہوں گی؟
وفاقی کابینہ کی جانب سے نو مارچ کو منظور ہونے والے مسودہ قانون کو ’سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2021‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس ایکٹ میں گورنر سٹیٹ بینک کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے اور سٹیٹ بینک کے ملکی معیشت میں کردار کو بھی تبدیل کیا گیا ہے۔
اس مسودہ قانون کے مطابق صدر مملکت کو حکومت کی سفارش پر گورنر سٹیٹ بینک کی تقرری کا اختیار حاصل ہوگا۔
گورنر سٹیٹ بینک کی مدت ملازمت میں بھی توسیع کر دی جائے گی اور ان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس میں مزید پانچ سال کی توسیع بھی دی جا سکے گی۔ گورنر سٹیٹ بینک کو حکومت برطرف نہیں کر سکے گی بلکہ صدر مملکت صرف عدالتی فیصلے کے تحت گورنر سٹیٹ بینک کو ہٹا سکیں گے۔
اس ایکٹ کے مطابق اس کے علاوہ ڈپٹی گورنرز کی تعداد تین کرنے کی بھی تجویز ہے، جن کی مدت ملازمت میں مزید پانچ سال کی توسیع دی جا سکے گی۔ گورنر سٹیٹ بینک وزیرخزانہ کی مشاورت سے ڈپٹی گورنرز کے نام تجویز کریں گے۔
گورنر سٹیٹ بینک اور ڈپٹی گورنرز کو ماضی اور مستقبل میں قانونی کارروائی سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے اور ان کو اپنی پالیسیوں اور اقدامات پر نیب اور ایف آئی اے وغیرہ کی قانونی گرفت کا خدشہ نہیں ہوگا تاہم انہیں اپنی پالیسی پر پارلیمنٹ کو رپورٹ جمع کروانا ہو گی۔

مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ اگر سٹیٹ بینک کو صرف مہنگائی کنٹرول کرنے کا معاملہ دے دیا گیا تو پھر معاشی ترقی متاثر ہو گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کے مقاصد میں تبدیلی کر دی گئی ہے اور اب اس کا کام ملک میں قیمتوں کو مستحکم کرنا اور معاشی استحکام پیدا کرنا ہوگا، حکومت پاکستان اب سٹیٹ بینک سے براہ راست قرض نہیں لے سکے گی۔
مسودہ قانون پر اعتراض کیوں ہے؟
معاشی امور کے ماہر قیصر بنگالی کے مطابق ’نئے مسودہ قانون سے حکومت سٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکے گی اور اسے کمرشل بینکوں سے قرضہ لینا پڑے گا۔ اس صورت میں چونکہ سٹیٹ بینک اپنی مرضی سے شرح سود مقرر کرے گا تو حکومت کو مہنگے قرضے لینا پڑیں گے جس کا بوجھ عام آدمی پر ٹیکسوں کی شکل میں پڑے گا۔‘
انگریزی روزنامہ دی نیوز سے وابستہ معاشی امور کے ماہر مہتاب حیدر کے مطابق ’حکومت نئے مسودے کے ذریعے سٹیٹ بینک کے 1956 کے ایکٹ میں ایسی ترامیم لا رہی ہے جو سینٹرل بینک کو ریاست کے اندر ریاست بنا دیں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں سینٹرل بینکس جن کو سٹیٹ بینک بھی کہا جاتا ہے، کو خود مختاری دی جاتی ہے اور یہ بذات خود کوئی بری بات نہیں تاہم پاکستان میں قانون میں سٹیٹ بینک کو دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ ہی اختیارات دیے جا رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دوسری بات یہ ہے کہ یہ ترامیم بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی شرائط کی بنا پر کی جا رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر یہ ترامیم اتنی اچھی ہوتیں تو پہلے ہی حکومت کرتی ناکہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر کی جاتیں۔ اس میں وزارت خزانہ کا کردار ختم کر رہے ہیں جو کہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہےـ‘

اپوزیشن کے مطابق یہ قانون آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت لایا گیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

معاشی امور کے ماہر مہتاب حیدر نے تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ’جاپان، امریکہ کے سینٹرل بینکس کو بہت زیادہ خودمختاری حاصل ہے جبکہ تھائی لینڈ، برزایل کے مقابلے میں اب بھی پاکستان میں سٹیٹ بینک کو زیادہ خودمختاری حاصل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں مانیٹری پالیسی یا زری پالیسی سٹیٹ بینک بناتا ہے اور فسکل پالیسی وزارت خزانہ سے آتی ہے۔ وزرات خزانہ کے ساتھ شراکت کار کا مقصد ہوتا ہے کہ ملک کی معیشت میں ہم آہنگی ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم اگر سٹیٹ بینک وزارت خزانہ کے اختیار کار سے بالکل الگ ہو گیا تو پالیسیوں میں توازن بگڑ سکتا ہے۔‘
مہتاب حیدر کے مطابق ’پاکستان میں افراط زر یا قیمتوں کے بڑھنے کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک سپلائی کے مسئلے جیسے گندم کی فصل خراب ہو جائے یا زرعی اجناس میں کمی ہو جائے۔ دوسری وجہ انتظامی معاملات کی بنیاد پر قیمتیں بڑھنا جیسے بجلی گیس کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہونا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب ان دونوں وجوہات کو وفاقی حکومت ڈیل کرتی ہے۔ اگر سٹیٹ بینک کو صرف مہنگائی کنٹرول کرنے کا معاملہ دے دیا گیا تو پھر معاشی ترقی متاثر ہو گی۔‘

مسودے کے مطابق حکومت سٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکے گی (فوٹو: اے ایف پی)

 مہتاب حیدر کے مطابق یہ قانون ملک کے مفاد کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وفاقی حکومت قرضے کے لیے پرائیویٹ بینکوں کے پاس جائے گی تو ان کے رحم و کرم پر ہو گی اور اس طرح عام آدمی متاثر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ’نیب اور ایف آئی اے ملک کے منتخب وزیراعظم کو تو احتساب کے دائرے میں لا سکتے ہیں مگر سٹیٹ بینک کے حوالے سے اب کچھ نہیں کر سکیں گے۔‘
معاشی امور پر گرفت رکھنے والے صحافی شہباز رانا کے مطابق ’کچھ عرصہ قبل تک وزارت خزانہ اس بل کی مخالفت کر رہی تھی مگر اب سیکریٹری خزانہ کی تبدیلی کے بعد سب اس کے حامی ہو گئے ہیں۔‘
شہباز رانا کے مطابق ’یہ بل آئی ایم ایف سے بھی زیادہ کچھ لوگوں کے مفادات کا زیادہ تحفظ کر رہا ہے۔‘
اس کی ایک شق یہ بھی ہے کہ سٹیٹ بینک کو انڈیمنٹی حاصل ہو گی گویا اس بینک کے پچھلے اقدامات کو بھی تحفظ حاصل ہو گا۔‘

قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ مہنگے قرضوں کا بوجھ ٹیکس کی شکل میں عام آدمی پر پڑے گا (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ نیب میں پہلے بھی بینک کے حوالے سے کیسز چل رہے ہیں کہ نئے قانون کی منظوری کے بعد وہ بھی ختم کرنا ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت سٹیٹ بینک دو کام کرتا ہے مہنگائی کو کنٹرول کرنا اور معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرنا۔ تاہم نئے قانون کے تحت اس کا کام اب مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہوگا اور اس کے بعد فائنانشنل سیکٹر کا استحکام اس کا مقصد ہو گا مگر اب اس کے مقاصد میں معیشت کی ترقی شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نئے مسودے میں مہنگائی کے کنٹرول کی کوئی تعریف بھی نہیں ہے۔‘
شہباز رانا کے مطابق ’پوری دنیا میں جب بینک کو اتنا اختیار دیا جاتا ہے تو پھر اس کا احتساب ہوتا ہے مگر یہاں پر اس قانون میں صرف اتنا ہے کہ پارلیمنٹ میں ایک رپورٹ دی جائے گی یعنی صرف اطلاع دی جائے گی۔‘

نئے قانون کے تحت گورنر اور ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک کو نیب یا ایف آئی اے کی جانب سے گرفت کا خطرہ نہیں ہو گا (فوٹو: اے پی پی)

انہوں نے کہا کہ ’نئے قانون کی منظوری کے بعد اگر سٹیٹ بینک مستقبل میں شرح سود کو 20 فیصد تک بھی بڑھا دے اور ڈالر کی قیمت  کو 200 ڈالر تک بھی لے جائے اور کہے کہ یہ اقدامات مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں تو گورنر اور دیگر اہلکاروں کو کوئی پوچھ نہیں سکے گا وہ صرف پارلیمنٹ میں اپنی رپورٹ دے کر گھر چلے جائیں گے۔‘
حکومت کا موقف
اس حوالے سے اپوزیشن اور ماہرین کی شدید تنقید کے باوجود حکومت ابھی تک کھل کر رائے دینے سے گریز کرتی رہی ہے۔ تاہم بدھ کو اپنی بطور وزیرخزانہ پہلی پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر حماد اظہر صحافیوں کے سوالات سے بچ نہ سکے۔
اس حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’مسودہ قانون اتنا بھی برا نہیں جتنا اسے پیش کیا جا رہا ہے بلکہ دوسرے ممالک کے تجربات کو سامنے رکھ کر اسے بنایا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پرانے مسودہ قانون میں بھی اس سے زیادہ خودمختاری سٹیٹ بینک کو دی گئی تھی تاہم اب ہم نے اسے مزید بہتر کیا ہے۔‘
وزیرخزانہ کے مطابق پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے اور اس مسودہ قانون کو کھلے دل سے پارلیمنٹ میں لایا جائے گا اور جو تجاویز ارکان دیں گے ان پر غور کیا جائے گا۔

شیئر: