Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا بھر میں کورونا وائرس کب اور کیسے ختم ہوگا؟

ماہرین کے مطابق سال 2022 کے آخر تک کورونا پر قابو پایا جا سکتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کے ماہرین نے کہا ہے کہ وبا سے نکلنے میں سب سے پہلے وہ ممالک کامیاب ہوں گے جہاں ویکسین شدہ افراد کی تعداد زیادہ ہے اور جہاں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں قدرتی طور پر قوت مدافعت پیدا ہوچکی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے درجن سے زیادہ ماہرین کورونا وائرس سے انٹریو کیے ہیں جنہوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، پرتگال اور انڈیا جیسے ممالک میں کورونا وائرس سب سے پہلے ختم ہو سکتا ہے۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ سارس کووڈ ٹو کے بارے میں پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی جو مسلسل تبدیل ہو رہا ہے اور غیر ویکسین شدہ آبادیوں میں پھیلتا ہے۔
ماہرین نے اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ سال تک بہت سے ممالک نے وبا کی شدت کو پیچھے چھوڑ دیا ہوگا۔
عالمی ادارہ صحت کی وبائی امراض کی ماہر ماریہ وان کرکھوو نے روئٹرز کو بتایا کہ سال 2022 کے آخر تک وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے، متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا ہدف ہے کہ آئندہ سال کے آخر تک دنیا کی 70 فیصد آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہو۔
وبائی امراض کی ماہر ماریہ وان نے کہا کہ اگر یہ ہدف پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو صورت حال مختلف ہوگی۔
انہوں نے چند ممالک میں کورونا کے حفاظتی اقدامات قبل از وقت اٹھانے پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔
’یہ میرے لیے حیران کن ہے کہ لوگ اس طرح سے باہر نکل رہے ہیں جیسے سب (وبا) ختم ہوگیا ہے۔‘
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 26 اکتوبر کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگست سے کورونا کیسز اور ہلاکتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
کورونا کی ڈیلٹا قسم نے ان ممالک میں تباہی مچائی ہوئی ہے جہاں ویکسین لگانے کی مہم سست روی کا شکار ہے یا پھر جہاں ماسک پہننے کی پابندی ختم کردی گئی ہے۔

پانچ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو بھی ویکسین لگانے کا آغاز ہو گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ڈیلٹا قسم کے باعث سنگاپور اور چین میں بھی متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جہاں ویکسین شدہ افراد کی تعداد تو زیادہ ہے لیکن سخت لاک ڈاؤن کے باعث قوت مدافعت کم ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ سکول میں ماہر وبائی امراض مارک لپ سچ کا کہنا ہے کہ ہر جگہ پر تبدیلی مختلف ہوگی کیونکہ اس کا انحصار وہاں کی آبادی میں موجود قوت مدافعت اور ویکسین کی تقسیم پر ہوگا۔
اکثر ماہرین کے مطابق امریکہ میں ڈیلٹا قسم کی لہر رواں ماہ میں نمٹ جائے گی جو کووڈ 19 کی آخری شدید لہر تھی۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن میں امراض کی پیشین گوئی کرنے والے کرس مرے کے خیال میں بھی امریکہ میں ڈیلٹا قسم کی لہر نومبر کے آخر تک ختم ہو جائے گی۔
’اگر کوئی نئی اہم قسم سامنے نہ آئی تو اپریل میں کورونا ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔‘
وبائی امراض کی ماہر ماریہ وان کرکھوو نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ کورونا عالمی وبا سے نکل کر علاقائی مرض کے مرحلے میں داخل ہو جائے گا لیکن آئندہ کئی برسوں تک یہ ملیریا اور دیگر وبائی امراض کی طرح بیماریوں اور ہلاکتوں کا ذمہ دار رہے گا۔
کچھ ماہرین کے خیال میں کورونا وائرس بالآخر خسرے کی طرح ایک بیماری بن جائے گا جو ان آبادیوں میں پھیلتا ہے جہاں ویکسین شدہ افراد کی تعداد کم ہو۔

ڈیلٹا کی قسم سے متعلق سائنس دانوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم دیگر ماہرین کورونا کو انفلواینزا کی طرح موسمی سانس کی بیماری کے طورر پر دیکھ رہے ہیں۔ 
لندن کے ایمپیریئل کالج کے مطابق برطانیہ میں آئندہ دو سے پانچ سال کے درمیان اوسط سے زیادہ ہلاکتیں سانس کی بیماریوں سے ہوں گی تاہم صحت کے نظام پر بوجھ نہیں پڑے گا اور نہ ہی سماجی فاصلے کی پابندی کی ضرورت ہوگی۔
امریکی فریڈ ہچنسن کینسر سینٹر میں وائرولجسٹ ٹریور بیڈ فارڈ کے مطابق امریکہ میں موسم سرما کے دوران کورونا کی لہر شدید نہیں ہوگی، جبکہ 2022 سے 2023 تک کورونا عالمی وبا سے علاقائی مرض میں تبدیل ہوجائے گا۔ انہوں نے امریکہ میں کورونا سے ہونے والی سالانہ ہلاکتوں کا اندازہ 50 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان لگایا ہے جو فلو سے ہونے والی 30 ہزار سالانہ ہلاکتوں کے علاوہ ہیں۔
ٹریویر بیڈفارڈ کا کہنا ہے کہ وائرس میں تبدیلی پیدا ہوتی رہے گی اور ہر ویریئنٹ کی مطابقت سے سالانہ بوسٹر شاٹ لگوانا پڑے گا۔
وبائی امراض کی تیاری کے لیے اتحاد کے سربراہ رچرڈ ہیچٹ کا کہنا ہے کہ ان کے لیے سب سے زیادہ تشویش کی وجہ ایسے ویریئنٹ کا پیدا ہوجانا ہے جس پر تیار کردہ ویکسین اثر انداز نہ ہو سکے یا پچھلے ویریئنٹ سے پیدا ہونے والی قوت مدافعت بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔

شیئر: