Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سعودی عرب کے ساتھ روحانی، سٹریٹیجک اور اقتصادی تعلقات ہیں‘

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ (فوٹو: بلومبرگ)
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات روحانی نوعیت سے لے کر سٹریٹیجک اور اقتصادی نوعیت تک پھیلے ہوئے ہیں۔
منگل کو نینشل ڈیفنس یونیورسٹی میں زیرتربیت افسران سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک بالخصوص یو اے ای میں مقیم پاکستانی ریکارڈ ترسیلات زر کے ساتھ ملک کی معشیت میں اپنا اہم حصہ ڈال رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بحرین، ایران، ملائیشیا، قطر، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک کے ساتھ اپنی روایتی شراکت داری کا دائرہ وسیع اور مزید گہرا کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی کے مطابق انہیں مجھے کئی دوست ممالک سے شرکا کو پاکستان کے سول اور فوجی افسران کے ساتھ اکٹھے دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔
’ہم ایک دلچسپ دور سے گزر رہے ہیں، جہاں دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنے قومی مفادات کو فروغ دینے اور انہیں نقصانات سے بچانے کے لیے نئے حقائق سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہر وقت چوکس رہیں۔
ان کے بقول پاکستان جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور چین کے سنگم پر واقع ہے۔ اس لیے ہمارے اقتصادی مفادات کو فروغ دینے اور اپنے ثقافتی اور تاریخی تعلقات کو زندہ رکھنے کے لیے بہتر رابطہ ضروری ہے۔
’رابطہ کاری کے حوالے سے سی پیک ایک اہم اقدام ہے۔ پاکستان اس فریم ورک کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی گیم چینجر کے طور پر دیکھتا ہے۔‘
افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ مشترکہ ذمہ داری کا حصہ ہے۔
پاکستان نے افغانستان میں مذاکرات اور مفاہمت کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
’پاکستان نے ہمیشہ کہا کہ افغانستان کی جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، خوشحال افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اگست کے بعد ہم نے 37 ممالک اور 15 بین الاقوامی تنظیموں کے 30 ہزار سفارتی عملے کو نکالنے میں سہولت دی۔
 ان کے مطابق ’پاکستان کا خیال ہے کہ اس وقت سب سے بڑا موقع افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے عالمی برادری کا اتحاد ہے۔‘
شاہ محمود قریشی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے امن مخالف عناصر ایک بار پھر پاکستان کے خلاف بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
انہوں نے انڈیا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فروری 2019 میں اس کی جانب سے ہونے والی جارحیت نے خطے کو جنگ کے دہانے پر دھکیل دیا تھا۔
’ہمارا ردعمل ردعمل اشتعال کا مقابلہ کرنے، روکنے اور اس آگ کو  بجھانے والا تھا۔ ہم یہ تینوں مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔‘

شیئر: