Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں سموگ: سکول بند نہیں ہوں گے، دفاتر میں 50 فیصد حاضری کا حکم

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائیکورٹ نے سموگ اور فضائی آلودگی کے پیش نظر نجی دفاتر میں 50 فیصد حاضری کے ساتھ کام کے لیے حکومت کو نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی ہیں۔ تاہم دوران سماعت ماحولیاتی کمیشن کی سکول بند کرنے کی تجویز سے عدالت نے اتفاق نہیں کیا۔  
جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران آلودگی کا سبب بننے والے عناصر کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ جیسے کورونا کے دنوں میں دفاتر میں 50 فیصد حاضری کی گئی ہے اسی طرح سموگ کے باعث بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔    
اپنے فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے کمشنر راولپنڈی، کمشنر لاہور اور کمشنر فیصل آباد کو سموگ کے تدارک کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کا بھی حکم جاری کیا ہے۔ اور ٹریفک جام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ایمرجنسی کال لائن قائم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
عدالت میں کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو لاہورہائی کورٹ کے بنائے ہوئے جوڈیشل واٹر اینڈ ماحولیاتی کمیشن نے سموگ کے علاقوں میں سکول بند کرنے سمیت دیگر سفارشات کے ساتھ پانچ صفحات پر مبنی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ماحولیاتی کمیشن نے سموگ والے علاقوں میں جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس 400 سے زائد ہے وہاں سکول بند کر کے کلاسز آن لائن کرنے کی تجویز دی جبکہ ایسے علاقے جہاں ائیرکوالٹی انڈیکس 500  یا اس سے زیادہ ہے، ان علاقوں میں تمام صنعتی یونٹس بھی بند کرنے سفارش کی گئی۔   

گذشتہ 10 دنوں سے لاہور میں فضائی آلودگی کو دنیا میں سب سے زیادہ بتایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دھواں کنٹرول کرنے والے آلات نہ لگانے والی فیکٹریوں کو 50 ہزار سے ایک لاکھ تک کے جرمانے کرنے اور فصلوں کی باقیات کو جلانے کے خلاف مانیٹرنگ، فصلوں کی باقیات جلانے والے علاقوں میں پٹواریوں، زرعی افسروں کو مانیٹرنگ کی ذمہ داری دینے اور سموگ کے تدارک کے لیے تمام ڈپٹی کمشنرز کے اقدامات پر نظر رکھنے کی بھی تجاویز دی ہیں۔  
عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب میں چار ہزار 761 بھٹوں کی انسپکشن اور ساڑھے تین کروڑ روپے کے جرمانے کیے گئے۔ سموگ کے تدارک کے اقدامات نہ کرنے والے بھٹوں کے خلاف 797 مقدمات درج، 22 افراد گرفتار اور 274 بھٹے سربمہر کیے گئے۔
دھوئیں کا سبب بننے والی گاڑیوں پر 46 لاکھ روپے جرمانے کیے گئے جبکہ دھوئیں سے بچاؤ کے آلات نصب نہ کرنے پر 245 صنعتی یونٹس کو سربمہر کیا گیا۔
لاہور میں آلودگی کا سبب بننے والی 77 صنعتوں کو سربمہر کیا گیا اور ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والی فیکٹریوں کے خلاف 197 مقدمات درج ہوئے، جبکہ 93 افراد گرفتار کیے گئے۔ اسی طرح فصلوں کی باقیات جلانے پر 864 مقدمات اور چار لاکھ 94 ہزار روپے جرمانے کیے گئے۔  
عدالت نے چیئرمین ماحولیاتی کمشین جسٹس ریٹائرڈ علی اکبر قریشی کی رپورٹ کی روشنی میں آلودگی پھیلانے والے صنعتی  یونٹس کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کرنے کی مزید ہدایات جاری کرتے ہوئے کمیشن کی سکول بند کرنے کے سوا تمام سفارشات مان لی ہیں۔

کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ دھوئیں کا سبب بننے والی گاڑیوں پر 46 لاکھ روپے جرمانے کیے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت نے آئندہ پیشی پر پنجاب حکومت سے اس رپورٹ اور عدالتی حکم پر عمل درآمدی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ہے۔  
دوسری طرف حکومت پنجاب نے عدالتی حکم پر عمل درآمد کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ اس سے قبل پنجاب کے ماحولیات کے وزیر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو ایک خط لکھا تھا جس میں سموگ کے حوالے سے حکومتی ڈیٹا جاری کرنے والی نجی کمپنیوں اور موبائل ایپس کے خلاف کاروائی کی ہدایت کی تھی۔  
جبکہ پروینشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی نے فصلوں کی باقیات جلانے کے علاقوں کی رئیل ٹائم مانیٹنرنگ کے لئے پاکستان کے خلائی تحقیقاتی ادار ے سپارکو سے سیٹلائیٹ مدد بھی مانگی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے سموگ کے خلاف عملی اقدامات کررہی ہے۔ 
یاد رہے کہ گذشتہ 10 دنوں سے لاہور میں فضائی آلودگی کو دنیا میں سب سے زیادہ بتایا جا رہا ہے البتہ حکومت اس انڈیکس سے اتفاق نہیں کر رہی۔ 

شیئر: