Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں انسداد سموگ سکواڈ کا فیکٹریوں کی مانیٹرنگ کا آغاز

گزشتہ ہفتے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے سموگ کو ایک ’آفت‘ قرار دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
لاہور میں اینٹی سموگ سکواڈ دھواں نکالنے والی فیکٹریوں کا سراغ لگانے کے لیے متحرک ہو گیا ہے اور یہ آپریشن دسمبر کے وسط تک جاری رہے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اینٹی سموگ سکواڈ کی ٹیم کے اہلکار ہر روز مختلف مقامات کا معائنہ کرتے ہیں۔ وہ زہریلے دھوئیں کو سکین کرتے ہیں جس اسے انہیں پتا چلتا ہے کہ فیکٹری ماحولیاتی قوانین کو توڑ رہی ہے۔
اس نئے آپریشن کے انچارج محکمہ ماحولیات کے اہلکار علی اعجاز کا کہنا ہے کہ ’اصل سبب تک پہنچنے کے لیے ہمیں صرف دھوئیں کا پیچھا کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں فہرستوں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔‘
علی اعجاز کا کہنا ہے کہ وہ وسیع و عریض شہر میں 300 صنعتی کارخانوں کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جنہیں زہریلے دھوئیں کے بدترین اخراج کے ذمہ دار کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں انڈیا اور پاکستان میں ہوا کا معیار خراب ہوا ہے۔ سردیوں میں کم درجے کے ڈیزل کے دھوئیں اور موسمی فصلوں کے دھوئیں کے مرکب سے پیدا ہونے والی خطرناک آلودگی سرد درجہ حرارت کی وجہ سے زیادہ تکلیف دہ ہو گئی ہے۔
دوسری جانب لاہور کو دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں سے ایک کے طور پر شمار کیا جاتا ہے اور یہ روزانہ کی درجہ بندی میں اکثر سرفہرست ہی رہتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق حکام سموگ کا ذمہ دار روایتی حریف انڈیا کو قرار دیتے ہیں یا پھر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اعداد و شمار مبالغہ آمیز ہیں۔
اس سال آلودگی میں معمول سے پہلے ہی اضافہ ہو گیا اور لاہور کو جامد، گندی سرمئی ہوا نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
گزشتہ ہفتے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اسے ایک ’آفت‘ قرار دیا تھا۔
انیٹی سموگ سکواڈ کی ایک ٹیم کے لیڈر ساجد علی نے اے ایف پی کو بتایا یہ واضح ہے کہ فیکٹریاں غیر معیاری ایندھن استعمال کر رہی ہیں۔ یہ گیسیں سانس لینے میں دشواری کے شکار لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔‘
سکواڈ کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’کئی فیکٹری مالکان سیاسی اثر و رسوخ اور رابطوں کے ذریعے سکواڈ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
یہ ہمارے کام کو مزید مشکل بنا دیتا ہے... ہم سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں۔

’ ’کئی فیکٹری مالکان سیاسی اثر و رسوخ اور رابطوں کے ذریعے سکواڈ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

حکام ایک وقت میں چند دنوں سے زیادہ فیکٹریوں کو بند نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ کم اجرت والے مزدوروں کو دہاڑی پر تنخواہ ملتی ہے۔
ماحولیاتی وکیل اور کارکن رافع عالم سموگ سکواڈ کے اقدام کو ’نمائشی‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہزاروں صنعتی سائٹس ہیں جو زہریلے دھوئیں کا اخراج کرتی ہیں، ان سے صرف لاہور کے اندر سکواڈ کے چھ یا 12 دستے نہیں نمٹ سکتے۔‘
علی اعجاز بھی زیادہ پرامید نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ شہر کی تمام فیکٹریوں کو بند کر دیں اور ٹریفک کو بھی کم کر دیں تو یہ صرف ’سموگ کی شدت کو کم کرے گا اسے ختم نہیں کرے گا۔‘
ہم طویل مدت تک اس کا سامنا کریں گے۔‘

شیئر: