Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فضائی آلودگی سے گذشتہ سال بڑے شہروں میں ایک لاکھ 60 ہزار اموات

دہلی میں گذشتہ سال بہت بڑا فرق دیکھا گیا تھا، جب شہریوں کو صاف آسمان تلے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ سال کورونا وائرس کی وجہ سے کیے گئے لاک ڈاؤن کے بعد دنیا بھر میں ہوا کا معیار بہتر ہوا تھا پھر بھی پانچ گنجان آباد شہروں میں آلودگی کی وجہ سے وقت سے پہلے ایک لاکھ 60 ہزار کے قریب اموات ہوئیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جمعرات کو ماحولیات پر کام کرنے والے ایک ادارے گرین پیس ساؤتھ ایشیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں نئی دہلی سرفہرست ہے جو کرہ ارض کا سب سے آلودہ شہر ہے اور جہاں ہوا کے معیار میں خرابی کے باعث 54 ہزار اموات ہوئیں۔
جاپان کے شہر ٹوکیو میں یہ تعداد 40 ہزار تھی جبکہ دیگر شہروں میں چین کا شہر شنگھائی، برازیل کا ساؤپاؤلو اور میکسیکو سٹی شامل ہیں۔
آلودگی سے متعلق رپورٹ میں ہوا میں موجود چھوٹے ذرات کا جائزہ لیا گیا ہے جو کہ حیاتیاتی ایندھن کے جلانے کا نتیجہ ہیں۔
گرین پیس انڈیا کے ماحولیات کی مہم چلانے والے شخص اویناش چنچل کا کہنا تھا کہ 'جب حکومتیں کلین انرجی کے بجائے کوئلے، تیل اور گیس کے استعمال کو ترجیح دیتی ہیں تو ہماری صحت اس کی قیمت ادا کرتی ہے۔'
حیاتیاتی ایندھن جلانے سے ہوا میں بننے والے چھوٹے پی ایم 2.5 ذرات صحت کے لیے بے حد مضر مانے جاتے ہیں۔
یہ دل اور پھیپھڑوں کو تباہ کرتے ہیں اور دمے کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں۔ کچھ تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ ’ایم پی 2.5 ذرات کی وجہ سے کووڈ-19 سے مرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘

کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگائے گئے لاک ڈاون سے کچھ عرصے کے لیے بڑے شہروں میں مطلع صاف ہوا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اموات کی بڑی تعداد کے باوجود کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگائے گئے لاک ڈاون سے کچھ عرصے کے لیے بڑے شہروں میں مطلع صاف ہوا تھا، کیونکہ اُس دوران ٹریفک میں کمی آئی تھی اور صنعتیں بند کر دی گئی تھیں۔‘
دہلی میں گذشتہ سال بہت بڑا فرق دیکھا گیا تھا، جب شہریوں کو صاف آسمان تلے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ’ ہوا میں آلودگی پیدا کرنے والی عناصر میں لاک ڈاؤن کے دوران کمی سے کئی جانیں بچ گئی تھیں۔‘
تاہم گرین پیس نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ کورونا وائرس کہ وجہ سے پیدا ہونے والی معاثی بحران سے نکلنے کے لیے جو منصوبے بنائے جا رہے ہیں ان میں قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری شامل کی جائے۔

شیئر: