Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسی کا دل دکھانے کی سزاکتنی بھیانک ہے

اولاد تو اولادہی ہوتی ہے ۔ کسی بھی قسم کی جسمانی او ر ذہنی کمزوری کا شکار بچوں کو تو زیادہ توجہ اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے

عنبرین فیض احمد ۔ ریاض

غرور اور تکبر وہ چیزیں ہیں جو انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتیں، لے ڈوبتی ہیں۔ انسان کو گمراہی اور تباہ کاریوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کو آئندہ زندگی میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ رب العالمین جس کو چاہتا ہے، صحت مند اولاد عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے آزمائش میں مبتلا فرمادیتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ سے ہر لمحہ ڈرتے ہوئے رحم و کرم کی بھیک مانگنی چاہئے۔ ثمینہ کی ایک ہی ا ولاد تھی جو بہت ہی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی مگر وہ بیٹی جسمانی و ذہنی طور پر ٹھیک نہیں تھی۔ والدین اپنی بچی کو علاج کے لئے مختلف جگہوں پر لے گئے کہ شایدوہ ٹھیک ہوجائے ۔ علاج بھی کافی کرایا گیامگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ویسے اس کی بیٹی کافی حد تک ٹھیک بھی ہوگئی تھی لیکن وہ چاہتی تھی کہ وہ سو فیصد نارمل بچوں کی طرح ہوجائے ۔ وہ اکثر کہتی تھی کہ میں اپنی بچی کی آنکھ میں ایک بھی آنسو دیکھنا نہیں چاہتی ۔ وہ جہاں جاتی، بچی کو اپنے ساتھ لے جاتی تھی ۔ کوئی اس کو دیکھ کر منہ بنالیتا ، کوئی کہتا کہ ثمینہ کی بچی تو پاگل ہے۔ دیکھا نہیں کس طرح خواتین کے عبائے اور پرس چھیننے کی کوشش کررہی تھی۔ بعض خواتین کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب ماں سے بچی کنٹرول نہیں ہوتی تو اسے ہر جگہ ساتھ لے کر کیوں جاتی ہیں؟ ایک خاتون نے تو کچھ زیادہ ہی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا توثمینہ کے گھر جانے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ جب بھی میں اس پاگل کو دیکھتی ہوں توگھبراہٹ ہونے لگتی ہے کیونکہ وہ میرے پاس آکر کھڑی ہوجاتی ہے اور میرے پرس اور عبایہ کے ساتھی کھیلنایا پھر ٹکٹکی باندھ کر مجھے گھورنا شروع کردیتی ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے بڑا خوف آتا ہے کہ وہ اب پتہ نہیں کیا کرنے والی ہے۔ یہ سن کر دوسری خواتین نے کہا کہ رابعہ ایسی باتیں نہیں کرتے۔ اس میں ثمینہ کا کوئی قصور نہیں۔ یہ تو اللہ کریم کی جانب سے آزمائش ہوتی ہے۔ وہ خاتون اکثر بچی کو ڈانٹ دیتیں اور دوسری طرف منہ پھیر لیتی تھیں ۔ بچی سہم جاتی اور ماں کی گود میں پناہ لے لیتی۔ خواتین منع کرتیں کہ اسے کیوں ڈانٹ رہی ہو؟ یہ بچی بے چاری تو معصوم ہے۔ اس پر خاتون کا جواب ہوتا کہ مجھے ایسے بچے اچھے نہیں لگتے۔ اس پاگل بچی کو دیکھنے کے بعد میرے سارے موڈ کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔ معلوم نہیں اس کی ماں کو کس طرح اس بچی پر اتنا پیار آتا ہے۔ وہ تو اسے پری کہہ کر بلاتی ہے اورحد یہ کہ چہرے پر ناگواری کے تاثرات تک نہیں ہوتے۔ پھر کافی عرصے تک میرا ثمینہ سے کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔ میں واپس سعودی عرب آگئی ۔میرے بچوں کی چھٹیاں ختم ہوگئی تھیں اس لئے مجھے آنا پڑا لیکن میرا فون پر رابطہ رہتا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس کی بچی کافی حد تک نارمل ہورہی ہے۔ مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی۔ جب بھی اس بچی کے بارے میں سوچتی کہ لوگ کیسی کیسی باتیں کرتے تھے،تو مجھے ان کی ذہنیت پر افسوس ہوتا۔ ثمینہ کا کرب سے بھرا چہرہ نگاہوں میں گھوم جاتا ، کانوں میں خواتین کی باتیں بازگشت کرنے لگتیں اور میںسوچتی کہ یہ تو رب کریم کی مرضی ہے کہ وہ جسے چاہے تندرست اورصحت مند اولاد دے اورجسے چاہے آزمائش میں مبتلا کردے۔ اولاد تو اولادہی ہوتی ہے ۔ کسی بھی قسم کی جسمانی او ر ذہنی کمزوری کا شکار بچوں کو تو زیادہ توجہ اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے کہ کہیں وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائیں۔ ہمیں اپنے خیالات بدلنے کی ضرورت ہے۔ جسمانی نقائص میں قصور اولاد کا ہوتا ہے نہ ہی اس کے والدین کا۔ وقت یونہی گزرتا رہا۔ فون پر رابطے تو جاری رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں کمی آتی گئی۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ وقت اور فاصلے محبتوں میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں۔ میری بھی مصروفیت میں اضافہ ہوگیا ۔ دوسری طرف ثمینہ کی بچی کافی حد تک نارمل ہوچکی تھی بلکہ اب تو وہ عام صحتمندبچوں کے ساتھ اسکول میں پڑ ھ رہی تھی۔ ثمینہ کے ساتھ رابطہ اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ میں کچھ عرصہ پہلے پاکستان گئی تو خیال آیا کہ کیوں نہ ثمینہ سے ملاقات کی جائے۔ کافی عرصے کے بعد ملاقات ہوئی، اس کے خدوخال کافی تبدیل ہوچکے تھے مگر اس نے مجھے پہچاننے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ سب سے زیادہ خوشی اس کی بچی کو دیکھ کر ہوئی جسے دیکھ کر ذرا بھی نہیں لگ رہا تھا کہ یہ وہی بچی ہے ۔ ڈھیروں باتیں ہوئیں، گلے شکوے ہوئے۔ پھر ثمینہ کی زبانی معلوم ہوا کہ رابعہ کے یہاں 3 بچیاں ہوئیں جو سب کی سب معذور ہیں۔ تھوڑی دیر کیلئے تومیں پریشان ہوگئی ، سوچنے لگی کہ انسان کو معلوم نہیں کہ اس کی کون سی بات اللہ رب العزت کو پسند نہ آئے لہٰذا ہر وقت سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے اورخیال رکھنا چاہئے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو ۔کسی کا دل دکھانے کی سزا کتنی بھیانک ہو سکتی ہے ، انسان اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا ۔یہ سوچتے ہوئے انتہائی بوجھل دل اور قدموں سے گھر واپسی ہوئی۔اس وقت میرے ذہن میں یہ شعر گونج رہا تھا: مصیبت ناگہاں ہوتی ہے جو آتی اچانک ہے کسی کا دل دکھانے کی سزا کتنی بھیانک ہے

شیئر: