Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیا سال پرانی آنکھ مچولی، ماریہ میمن کا کالم

وزیر اطلاعات نے عدلیہ سے شہباز شریف کے خلاف کیسز کا جلدی فیصلہ کرنے کا کہا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
نئے سال کا آغاز حکومت کی طرف سے شہباز شریف کے خلاف تابڑ توڑ بیانات سے ہوا ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے مطابق حکومت ان کی گارنٹی پر عمل ہونے کے بعد اب ان کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت کا یہ جارحانہ طرز عمل ن لیگ کے ان بیانات کا رد عمل ہے جن میں نواز شریف کی فوری واپسی کی نوید سنائی گئی تھی۔
شہباز شریف اور ن لیگ کی قیادت نے البتہ یہ جواب دیا ہے کہ جب ڈاکٹر اجازت دیں گے اور مناسب سمجھا جائے گا تو نواز شریف واپس آئیں گے۔ اب وہ مناسب وقت کونسا ہو گا اور اس کا تعین کون کرے گا؟
دوسری طرف حکومت کیا صرف بیانات کی حد تک رہے گی یا پھر صرف میڈیا کی حد تک ہی محدود رہے گی؟ فی الحال تو یہی لگتا ہے اس سال بھی یہ آنکھ مچولی جاری رہے گی۔
اس آنکھ مچولی کا تازہ مرحلہ سابق جج رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر سے ہوا جس کے بعد ن لیگ کے بیانات میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کو کئی اندرونی اور بیرونی سیاسی رکاوٹیں بھی آنا شروع ہوگئی ہیں۔ ن لیگ کی صفوں سے یہ اعلانات شروع ہو گئے ہیں کہ اب بس کچھ عرصے کی بات ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی panic کے اثرات نظر آنے لگے ہیں۔
کچھ بیانات سے تو نا دانستہ ایسا پیغام جاتا نظر آتا ہے کہ نواز شریف کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ باہر ہی رہیں۔ اور بات ہے بھی ایسی کہ نواز شریف کا واپس آنا حکومت کے لیے سیاسی مسائل کم کرنے کے بجائے بڑھانے کا سبب ہی بنے گا چاہے نواز شریف جیل میں ہی کیوں نا ہوں۔
دوسری طرف شہباز شریف ہیں جو کہ وزیراعظم کے بقول نوکری کی درخواست لیے پھر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی طرف سے یہ تاثر بھی نظر آتا ہے کہ کہیں اس نوکری کے درخواست پر کارروائی نہ شروع ہو جائے۔ شہباز شریف کے کیسز بھی لٹکتے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کے کیسز میں ایک سال میں فیصلہ ہو گیا جبکہ شہباز شریف کے کیس تین سال سے زیر التوا ہیں اور جلدی فیصلے کی کوئی خبر بھی نہیں۔

وزیراعظم عمران کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نوکری کی درخواست لیے پھر رہے ہیں۔ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

وزیر اطلاعات کی طرف سے عدلیہ کو جلدی فیصلوں کا کہا بھی گیا ہے مگر لگتا ہے کہ ان میں ابھی وقت ہے۔ اگرچہ ایسے اشارے دیے گئے ہیں مگر دوبارہ گرفتاری بھی ہوتی نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف نیب میں بھی قانونی اور انتظامی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ حکومت نے شہباز شریف کو باہر جانے سے روک تو دیا ہے مگر باقی قانونی آنکھ  مچولی اسی طرح جاری رہے گی۔
یہ آنکھ مچولی حکومت کے اندر بھی جاری ہے۔ ہر دفعہ قانون سازی سے پہلے حکومت کے اتحادی عدم تعاون کے اشاروں کے بعد مان جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ہر کچھ عرصے کے بعد حکومت کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں مگر کوئی ٹائم فریم طے کیے بغیر۔
 پنجاب کی صوبائی حکومت بھی اپنے مخصوص دائرے میں رواں دواں ہے یعنی جا بھی نہیں رہی اور ہونے کا کوئی خاص اثر بھی نہیں۔ وزیراعظم کے پنجاب کے دورے بڑھ گئے ہیں اور نئے نئے منصوبوں کا افتتاح بھی ہو رہا ہے۔ ان میں بھی حال کا کم اور مستقبل کا ذکر زیادہ ہے ۔
عوام کو البتہ مہنگائی کی آنکھ مچولی کی زیادہ فکر ہے۔ نئے سال کا آغاز بھی تیل کی قیمت میں چار روپے اضافے سے ہوا۔ منی بجٹ کے بعد اشیائے صرف کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ حکومت عوام کو مہنگائی کی وجوہات بتا رہی ہے مگر علاج ابھی بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ وزیر داخلہ نے تو آسان نسخہ بتایا ہے کہ حکومت کے پانچویں سال مہنگائی ختم ہو جائے گی۔ اس وقت تک تو عوام کے ساتھ جو بھی ہو وہ ہوتا رہے۔

 ن لیگ کی قیادت کا موقف ہے کہ جب ڈاکٹر اجازت دیں گے تو نواز شریف واپس آئیں گے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس سال بھی پرانی آنکھ مچولی چلتی رہے گی؟ اور اگر ختم بھی ہوگی تو کیسے؟ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو اپوزیشن نے اگلی تاریخ 23 مارچ کی دی ہے۔ اس تاریخ کا بھی ابھی پتا نہیں کہ فائنل ہے یا نہیں۔ نواز شریف کی واپسی کی خبریں بھی ایک اسرار ہیں اور ایک طرح سے سیاسی طور پر متحرک رہنے کی کوشش۔
دوسرے طرف معاشی میدان میں اچھی خبریں کم ہی ہیں۔ اب یہی اچھی خبر ہوگی کہ حالات اس سے زیادہ خراب نا ہوں۔ یہی حال گورننس کا ہے۔ تبدیلی کے لیے سب کھلاڑی کسی اور طرف دیکھ رہے ہیں۔ جب تک ادھر ادھر دیکھنا جاری رہے گا، آنکھ مچولی بھی جاری رہے گی۔

شیئر: