Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملزمان کو پہچاننے سے انکار کے بعد کارروائی ہو سکتی ہے؟

وزیراعظم نے ہدایت کی کہ خواتین سے زیادتی اور ہراسیت کے کیسز کی ریاست خود پیروی کرے (فائل فوٹو: روئٹرز)
گذشتہ سال جولائی میں اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں لڑکے اور لڑکی کو ہراساں کرنے کی ویڈیو بنانے کے الزام میں گرفتار ملزمان کو منگل کو متاثرہ فریقین نے عدالت میں پہچانے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کیس کے دوران متاثرہ لڑکی اور لڑکے نے عین موقع پر اپنا وکیل بھی تبدیل کردیا اور عدالت میں بیان دیا کہ ’وہ ملزمان کو نہیں پہچانتے نہ ہی وہ اس کیس کی مزید پیروی کرنا چاہتے ہیں۔‘
فریقین کی جانب سے کیس کی پیروی سے انکار کے بعد بدھ کو وفاقی حکومت نے خود اس کیس کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزارت قانون کے اعلامیے کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ خواتین سے زیادتی اور ہراساں کرنے کے کیسز کی ریاست خود پیروی کرے۔ ریاست تمام متاثرہ خواتین اور بچوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون ملیکہ بخاری کے مطابق خواتین اور بچوں سے زیادتی کے مرتکب مجرم کسی صورت قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔
خیال رہے کہ اس مقدمے میں ریاست خود بطور مدعی شامل ہے۔

کیس میں دستیاب شواہد کیا ہیں؟

سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا کے مطابق ’متاثرہ فریقین کی جانب سے کیس کی پیروی نہ کرنے اور ملزمان کو پہچاننے سے انکار کے بعد کیس کمزور ہوچکا ہے۔‘
ان کے خیال میں ’اب اس کیس کی پیروی کرتے ہوئے جب تک متعلقہ فریق شہادت کو تسلیم نہیں کرتا، سزا جزا کا عمل کیسے پورا ہوگا؟ جو شخص شہادت دے رہا ہے وہ ہی پیچھے ہٹ جائے تو کیسے اس کیس میں سزا دی جا سکتی ہے؟‘
تاہم سینیئر قانون دان عمران شفیق کے مطابق ’فریقین کے منحرف ہونے کے بعد کیس کمزور ضرور ہوا ہے لیکن ریاست اب بھی اس کیس کو ثابت کرسکتی ہے۔‘
ان کے خیال میں اب ریاست کو عدالت میں شواہد اور گواہان کو پیش کرنا ہوگا جس سے اس جرم کا ارتکاب ثابت ہو۔

ملیکہ بخاری کے مطابق خواتین اور بچوں سے زیادتی کے مرتکب مجرم کسی صورت قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون ملیکہ بخاری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’متاثرہ لڑکی اور لڑکے کو بھرپور تحفظ فراہم کیا جائے گا جبکہ ہمارے پاس اس کیس کے ناقابل تردید اور ٹھوس شواہد موجود ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ عثمان مرزا کی ویڈیو پنجاب فرانزک سائس ایجنسی سے تصدیق شدہ ہے اور اگلی پیشی پر تمام ثبوت عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔
’ہمارے پاس فوٹو گرامیٹری ثبوت موجود ہیں جسے آیندہ پیشی پر عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘

کیا عدالت فریقین کے خلاف بھی کارروائی کرسکتی ہے؟

سینیئر قانون دان عمران شفیق کے مطابق ریاست کو اس کیس میں ثابت کرنا ہوگا کہ ویڈیو اصلی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جن کے موبائل سے ویڈیو بننے کا الزام ہے اس کا ڈیٹا بھی عدالت میں جمع کرانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کیس میں سب سے بڑا ثبوت ویڈیو فرانزک رپورٹ ہے اور یہ عدالت میں ثابت کرنا اب ریاست کا کام ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عدالت منحرف گواہان کے طور پر متاثرہ فریقین کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لا سکتی ہے۔‘
عمران شفیق کا کہنا تھا کہ 'اس کیس میں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ متاثرہ فریقین ملزمان کو بچانے کے لیے بیانات سے مُکرے ہیں تو اس صورت میں انہیں تین سے سات سال تک قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔‘
سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا بھی اس بات سے متفق ہیں کہ فریقین عدالت میں دیے گئے اپنے بیانات سے ہی منحرف ہو جائیں تو عدالت ثابت ہونے پر جھوٹی گواہی کے الزام میں فریقین کے خلاف بھی کارروائی کرسکتی ہے۔

شیئر: