Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین سے خطرہ، فلپائن کا انڈیا سے جہاز شِکن میزائل خریدنے کا فیصلہ

انڈین وزارت دفاع نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
فلپائن نے انڈیا سے جہاز شکن (اینٹی شپ) میزائل سسٹم خریدنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق فلپائنی وزیر دفاع نے جمعے کو کہا کہ 'بحیرہ جنوبی چین میں بڑھتی ہوئی چینی جارحیت کے پیش نظر اپنی سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔'
جب صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کے پیشرو، بینگنو ایکینو نے 2012 میں فوج کو جدید اسلحہ فراہم کرنے کا پروگرام شروع کیا تھا تو فلپائن کی فوج ایشیا میں سب سے زیادہ ناقص اسلحے سے لیس تھی۔
فلپائنی سیکریٹری دفاع ڈیلفن لورینزانا نے بحریہ کو سمندری جہاز شکن میزائل سسٹم کی فراہمی کے لیے براہموس ایروسپیس کو دیے گئے تقریباً 37 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے معاہدے کے بارے میں تفصیلات پیش کیں۔
براہموس انڈیا اور روس کے مشترکہ منصوبے کے ذریعے ایک کروز میزائل تیار کیا گیاہے جس کے بارے میں انڈین وزارت دفاع کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کا تیز ترین کروز میزائل ہے۔
فلپائن یہ کروز میزائل خریدنے والا پہلا ملک ہوگا۔ دوسری جانب انڈیا  کی وزارت دفاع نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
اس معاہدے میں تین بیٹریاں، آپریٹرز اور مینٹینرز کے لیے تربیت کے ساتھ ساتھ لاجسٹک سپورٹ بھی شامل ہے۔
صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے فلپائنی فوج کے لیے 'سیکنڈ ہورائزن' کے نام سے جدید اسلحے کی فراہم کے پروگرام کے تحت میزائل سسٹم حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
فلپائن کی مسلح افواج کے ترجمان کرنل رامون زگالا کا کہنا ہے کہ 'یہ ہمارے علاقائی دفاع کا حصہ ہے۔'

 فلپائن اور چین نے ایک دوسرے پر علاقائی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہ سسٹم ممکنہ حملہ آوروں کے لیے ایک رکاوٹ کا کام کرے گا کیونکہ 'آپ اس کے ذریعے دور سے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔'
واضح رہے کہ جنوبی بحیرہ چین پر کشیدگی گذشتہ برس بڑھ گئی تھی، فلپائن اور چین نے ایک دوسرے پر علاقائی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا تھا۔
چین تقریباً تمام آبی گزرگاہوں پر اپنا دعویٰ کرتا ہے، جن کے ذریعے سالانہ کھربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے، جبکہ برونائی، ملائشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام بھی چین کے مقابلے میں دعوے دار ہیں۔
بیجنگ نے ہیگ میں قائم ثالثی کی مستقل عدالت کی جانب سے 2016 میں دیے گئے اس فیصلے کو نظر انداز کردیا ہے کہ اس (چین) کا تاریخی دعویٰ بے بنیاد ہے۔

شیئر: